ایک اور فرنٹ کھلتا نظر آرہا ہے!

امریکہ اور روس کے درمیان ٹکراو¿ بڑھتا جارہا ہے ۔لگتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اب روس کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کی ٹھان لی ہے ۔پچھلے کئی دنوں سے روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف ٹرمپ زہر اگل رہے ہیں اور یوکرین کے ساتھ جنگ کو ختم کرنے کیلئے دباو¿ ڈال رہے ہیں ۔لیکن پوتن ان کی ایک نہیں سن رہے ہیں ۔ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر سابق روسی صدر میداف پر نکتہ چینی کرتے ہوئے پوتن اور روس کو دھمکایا ہے ۔ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے سابق روسی صدر دمیتری میداف کی جانب سے بے حد اکسانے والے تبصرون کے بعد وہ نیوکلیائی آبدوزوں کو صحیح جگہ پر تعینات کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔بتادیں کہ میداف نے حال ہی میں امریکہ کے خلاف رائے زنی کی تھی یہ ٹرمپ کے اس الٹی میٹم کا جواب تھا جس میں انہوں نے روس سے یوکرین میں جنگ بندی کی مانگ کی تھی ۔ٹرمپ نے کہا کہ اگر روس نے ایسا نہیں کیا تو اسے اور سخت پابندیاں جھیلنی ہوں گی۔ٹرمپ نے کہا میں نے یہ قدم اس لئے اٹھایا ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے میداف کے تبصرے بیوقوفی بھرے اور بھڑکاو¿ بیان صرف باتیں بھر نہ ہوں الفاظ کی اہمیت ہوتی ہے ۔اور کئی مرتبہ ان کے انجام ان چاہے ہوسکتے ہیں ۔میں امید کرتا ہوں کہ اس بار ایسا نہیں ہوگا ۔انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ امریکی بحریہ کی یہ آبدوز کہاں بھیجی گئی ہیں ۔ٹرمپ نے کہا کہ یہ معاملہ ان حالات میں شامل نہیں ہوگا یہ فائنل الٹی میٹم ہے۔ روس اور امریکہ دنیا کے دو سب سے بڑے نیوکلیائی ہتھیار کفیل ملک ہیں۔اور دونوں کے پاس نیوکلیائی آبدوزوں کا وسیع بیڑا ہے ۔بتادیں کہ 29 جولائی کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر روس 10-12 دنوں میں یوکرین جنگ ختم نہیں کرتا تو اس پر سنگین اقتصادی پابندیاں اور ٹیرف لگائے جائیں گے ۔امریکہ امن چاہتا ہے لیکن وہ کمزور نہیں ہے ۔اس پر 29 جولائی کو روس کے سابق صدر میداف نے لکھا : نئی ڈیڈ لائن ایک دھمکی ہے اور جنگ کی طرف ایک قدم ہے ۔امریکہ کو انجام بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے اگر وہ روس کو اس طرح دھمکاتا رہا ۔ 30 جولائی کو ٹرمپ نے میداف کو ناکام سابق صدر کہتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے الفاظ پر توجہ دینی چاہیے اب بہت خطرناک زون میںداخل ہو رہے ہیں ۔اگلے دن ہی انہوں نے پھر دھمکی دی کہا کہ سویئت دور کا ڈیڈ ہینڈ سسٹم آج بھی سرگرم ہے ۔اگر امریکہ سوچتا ہے کہ وہ ایک طرفہ حکم دے سکتا ہے تو وہ غلط فہمی ہے اس کے بعد ہی جمعہ کو ٹرمپ نے ایٹمی آبدوزوں کی تعیناتی کا حکم دے دیا ۔پچھلے کچھ دنوں سے جیسے میں نے بتایا ٹرمپ اور میداف سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف شخصی حملے کررہے ہیں ۔یہ سب تب ہورہا ہے جب ٹرمپ نے پوتن کو جنگ ختم کرنے کے لئے 9 اگست کی نئی میعاد حد طے کرکے دے دی ہے لیکن پوتن نے اس کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ ایسے کرنے والے ہیں ۔بتادیں کہ میداف 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے زبردست حمایتی رہے ہیں ۔وہ مغربی ممالک کے سخت تنقید نگار بھی ہیں صرف چھ دیشوں کے پاس ہی نیوکلیائی طاقت سے لیس آبدوز ہیں یہ دیش ہیں چین ،بھارت ،روس ،برطانیہ ،امریکہ ہیں ۔امید کرتے ہیں کہ امریکہ روس میں بڑھتے ٹکراو¿ رک جائے گا اور کوئی سمجھوتہ ہو جائے گا ۔روس بھی بہت طاقتور دیش ہے وہ آسانی سے جھکنے والا نہیں ہے ۔روس یوکرین سے سمجھوتہ تو کرسکتا ہے لیکن یہ تبھی ہو سکتا ہے جب اس کی شرطیں یوکرین مانے جو بہت مشکل لگتا ہے ۔امریکہ کا یہاں دہرا کردار نظر آتا ہے ایک طرف تو ٹرمپ یوکرین کو ہتھیار اورپیسہ دے رہے ہیں ۔یوروپ کے دیشوں سے یوکرین کی مددکروا رہے ہیں ۔دوسر ی طرف جنگ بندی کی بات کرتے ہیں اگر دنیا میں کوئی آدمی بے نقاب ہوا ہے تو وہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں پھر نوبل ایوارڈ لینے کی اتنی جلدی ہے کہ الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں ۔دھمکیوں پر اتر آئے ہیں لیکن اب دنیا انہیں سمجھ چکی ہے وہ جانتی ہے کہ اندر سے یہ کتنے کھوکھلے ہیں اور شاید ہی اب انہیں کوئی سنجیدگی سے لیتا ہو لیکن روس یوکرین کی جنگ رکنا چاہیے ۔دونوں پوتن اور زیلنسکی کو سنجیدگی سے بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالنا چاہیے ۔ہزاروں جانیں ضائع ہو رہی ہیں ، روس یوکرین جنگ رکنی چاہیے اگر ٹرمپ رکوا سکتے ہیں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

سیکس ،ویڈیو اور وصولی!

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘