مہاراشٹر کا اقتدار کس کے ہاتھ میں؟

23 نومبر کو مہاراشٹر کے اقتدار میں کون آئے گا یہ سوال مہاراشٹر اور سیاست میں دلچسپی رکھنے والے ہر آدمی جاننا چاہتا ہے اسمبلی چناﺅ میں کیا بحث چھڑی ہے اور چناﺅ میں کونسا فیکٹر کام کرے گا ۔کن برادریوں کا حساب کتاب چلے گا ۔مہاراشٹر میں کیا ہوگا مقابلے میں کون آگے ہے وغیرہ وغیرہ سوال پوچھے جا رہے ہیں کچھ ہی مہینے پہلے لوک سبھا چناﺅ میں مہا وکاس ادھاڑی کو ملی چیت کا سلسلہ وہ برقرار رکھے گا ۔دوسری جانب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی قیادت والی مہایوتی سرکار نے ریاست بھر میں مختلف اسکیموں کو لاگو کرکے چناﺅ میں واپسی کی کوشش کی ہے ۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کے بی جے پی 2014 کے بعد مہاراشٹر میں بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے ۔اسلئے وہ اس چناﺅ میں بھی بڑی پارٹی کی شکل میں ابھرنے کی کوشش کرے گی ریاست میں کئی چھوٹی پارٹیاں بھی میدان میں ہے ۔ان کے علاوہ باغی بھی میدان میں ہیں یہ دونوں ہی اتحادیو ں کا تجزیہ بدل سکتی ہیں ۔مہایوتی (بھاجپا اتحاد)میں نظریات کی بھی تلخی بھی کھل کر سامنے آ رہی ہے ۔مہایوتی کے ساتھی اجیت دادا پوار اور ان کی پارٹی این سی پی کھل کر بی جے پی لیڈروں کے بیانوں کی مخالفت کر رہی ہے ۔شندے اور دویندر فڈنویس میں آپسی کھیچ تان ہے ۔ایسے میں سوال اٹھتا ہے کی ووٹنگ کے دن کیا یہ اتحاد کے ورکر ایک دوسرے کی پارٹی کو ووٹ ٹرانسفر کرا پائے گیں ؟چناﺅ کے دوران گوتم اڈانی کا بھی اشو بیچ میں آ گیا ہے میا وکاس ادھاڑی پارٹی جہاں ایک طرف یہ پرچار کر ہی ہے کے اب صنعت کار میز پر بیٹھ کر سرکاریں بناتے ہیں اور توڑ رہے ہیں وہیں مہاراشٹر میں لگنے والے کئی صنعتیں گجرات لے جا رہے ہیں جس سے مہاراشٹر کی ساخ کو دھکا لگا ہے ۔شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کی پارٹیوں کو توڑنے سے بھی جنتا کی ہمدردی ایم وی اے کے ساتھ ہے ۔دوسری طرف ایکناتھ شندے کی فلائی اسکیمیں اور یوجنائے ،تھوک بھاﺅ میں پیسوں اور طاقت کا استعمال کرنا بھی ایک چناﺅی فیکٹر ہے ۔پھر آر ایس ایس کیوں کے مہاراشٹر میں اس کا ہیڈ کواٹر ہے کئی سیکٹروں میں خاص کر ودربھ میں اہمیت رکھتا ہے اور آر ایس ایس کھل کر بھاجپا کے لئے بیٹنگ کر رہا ہے ۔حالانکہ ودربھ کی بات کریں تو نتن گڈکری کو پوری طرح سے نظر انداز کرنا مہایوتی کو بھاری پڑ سکتا ہے ہمیں لگتا ہے کے بھاجپا کی کوشش یہ بھی ہوگی کے وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے تاکے گورنر میں سرکار بنانے کے لئے بلائے ۔اگر ایک بار سرکار بن گئی تو پھر کھیل کھیلنے میں بھاجپا ماحر ہے ۔دوسری طرف تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کے مہاوکاس ادھاڑی کا چناﺅ کے بعد کا اتحاد ہے اور گورنر کو سب سے پہلے بات کے سب سے بڑے اتحاد کو موقع دینا چاہئے ہوا کے رخ کو مہاوکاس ادھاڑی کی طرف لگ رہا ہے لیکن ہمارے سامنے ہریانہ کا چناﺅ نتیجہ ہے جہاں دعویٰ تو کانگریس کی جیت کا کیا جا رہا تھا اور نتیجہ بھاجپا کی رکارڈ جیت کے ساتھ سامنے آیا ۔اس لئے چناﺅ میں کسی کی بھی پیش گوئی کرنا ٹھیک نہیں ہوتا ۔دیکھیں کی ای وی ایم میں کس کی قسمت کھلتی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!