کسی کا بھی گھر یوں ہی نہیں ڈھایا جاسکتا!

دیش بھر میں مختلف معاملوں کے ملزمان کے گھروں پر ہورہے بلڈوزر ایکشن پر سپریم کورٹ نے سوال کھڑے کئے ہیں ۔اس بات کو لے کر پچھلے کچھ وقت سے سوال اٹھنے شروع ہو گئے تھے کہ اگر کوئی شخص کسی کرائم کا ملزم ہے تو صرف اس وجہ سے اس کے گھر کو بلڈوزر سے کیسے گرایا جاسکتا ہے؟ اب اس معاملے پر داخل عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سخت ناراضگی دکھائی ہے اور صاف کر دیا ہے کہ کسی بھی شخص کا مکان محض الزام کی بنیاد پر نہیں گرایا جاسکتا ۔پیر کو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس دیوی وشوناتھ کی بنچ نے ریاستی حکومتوں کے بلڈوزر ایکشن پر سوال کھڑے کئے اس معاملے میں یوپی سرکار کا موقف رکھ رہے سرکاری وکیل تشار مہتا سے جسٹس گوئی نے پوچھا کہ کسی کا گھر محض اس بنیاد پر کیسے ڈھایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی معاملے میں ملزم ہے ۔جسٹس گوئی نے یہ بھی کہا کوئی شخص قصور وار بھی ہے تو قانونی خانہ پوری کی تعمیل کئے بنا اس کے گھر کو مسمار نہیں کیا جاسکتا حالانکہ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کے سیکریٹریٹ کا ایک ٹوئٹ کہتا ہے کہ ریاست میں بلڈوزر کی کاروائی مبینہ پیشہ آور جرائم پیشہ اور مافیاو¿ں کیخلاف ہے ۔الگ الگ ریاستوں میں ملزمان اور ملزمان کےخلاف کی جارہی بلڈوزر کاروائی زیروٹارلنس کی علامت کی شکل میں استعمال کرنے کا ٹرینڈ بڑھتا جارہا تھا جس سے کئی طرح کے سوال کھڑے ہو رہے تھے یہ ٹرینڈ اترپردیش سے شروع ہوا اور اس کا استعمال دیگر ریاستوں میں بھی شروع ہو گیا تھا غیر بی جے پی سرکاریں بھی فوری انصاف کا پیغام دینے کے لئے اس طرح کی کاروائی کا استعمال کرنے سے خود کو بھی روک نہیں سکیں ۔حالانکہ اس طرح کی کاروائی کے حق میں ہر جگہ دلیل یہی دی جارہی تھی کہ سرکاری بلڈوزر ناجائز تعمیرات کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں لیکن جس طرح سے ایک مذہب کے لوگوں کے خلاف یہ کاروائی کی جارہی تھی اس سے صاف تھا کہ معاملہ صرف ناجائز تعمیرات کا نہیں تھا تازہ مثال کانگریس کے مقامی لیڈر حاجی شہزاد علی کی ہے۔مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کے عہد میں شروع ہوئی ایسی کاروائی آگے بھی چلتی رہی ۔حاجی شہزاد علی مدھیہ پردیش کے چھترپور میں پچھلے تین مہینے یعنی اگست میں مسلم فرقہ کے لوگوں نے ایک متنازعہ تبصرے کے خلاف مظاہرہ کیا تھا اس دوران پولیس کو میمورنڈم دینے پہونچی بھیڑ نے کوتوالی پر پتھر بازی کر دی تھی اس معاملے میں حاجی شہزاد کے مکان پر بلڈوزر چلا دیا گیا تھا ۔گھر کے باہر کھڑی تین کاروں کو بھی زمین دوز کر دیا گیا ایسے میں سپریم کورٹ کے تازہ موقف کی باریکیاں خاص طور پر غور کرنے لائق ہیں ۔کورٹ نے پہلے تو یہ صاف کیا کہ اس بنیاد پر کسی کابھی گھر نہیں ڈھایا جاسکتا کہ وہ کسی معاملے میں ملزم ہے یہاں تک کہ اگر کسی کا جرم ثابت ہو جاتا ہے تب بھی اس کا گھر نہیں گرایا جاسکتا ۔پھر سپریم کورٹ نے یہ بھی صاف کر دیا کہ وہ کسی بھی شکل میں غیر قانونی تعمیرات کی بچاو¿ نا کرنے کے موڈمیں نہیں ہے ۔ریاستی سرکاروں کے بلڈوزر ایکشن پر یہ سوال اٹھایاجاتا ہے کہ کوئی شخص کسی جرم میں ملزم ہے تو اس کی سزا پورے خاندان کو کیوں دی جائے شاید یہی وجہ رہی ہے کہ بڑی عدالت نے متعلقہ فریقین سے تجاویز مانگی تاکہ اچل پراپرٹیوں کو گرانے سے بچایا جاسکے اور اس مسئلے پر پورے دیش کے لئے ایک ٹھوس گائڈ لائنس جاری کی جاسکے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟