ایودھیا کے بعد بدری ناتھ ہار!

13 سیٹوں کے ضمنی چناو¿ نتائج میں بھاجپا کو اتراکھنڈ کی بدری ناتھ اسمبلی سیٹ کو نا جیت پانا پارٹی کے لئے ایک بڑا سندیش ہے اس سے پہلے لوک سبھا چناو¿میں بھاجپا ایودھیا (فیض آباد ) ہار گئی تھی ۔حال ہی مین ہوئے لوک سبھاچناو¿ میں بھاجپا کی سیٹیں 303 سے گھٹ کر 240 رہ گئی تھیں ۔سب سے چونکانے والا فیصلہ فیض آباد لوک سبھا حلقہ کے ووٹروں نے سنا دیا جب وہاں سے بھاجپا امیدوار ہار گئے تھے یہ دنیا بھر میں بحث کا موضوع بنی ۔اس طرح اب بھاجپا نے اتراکھنڈ کی بدری ناتھ اسمبلی سیٹ بھی گنوا دی ہے ۔ایودھیا اور بدری ناتھ بھگوان بشنو کے سوروپ ہیں ۔دونوں سیٹیں ہارنے کے بعد بھاجپا ہندوتو کے ایجنڈے کو بھاری دھچکا لگا ہے ۔دراصل 2022 کے اسمبلی چناو¿ میں بھی بدری ناتھ اسمبلی سیٹ کانگریس نے ہی جیتی تھی لیکن کانگریس کے اسمبلی ممبرراجندر سنگھ بھنڈاری کو توڑ لیا گیا تھا پارٹی نے انہیں ہی امیدوار بنایا لیکن بدری ناتھ کی جنتا نے دل بدل کو قبول نہیں کیا اور پھر سے کانگریس پر ہی بھروسہ جتایا ۔کہہ سکتے ہیں کہ کانگریس نے اپنی سیٹ واپس لے لی اور یہاں ہار نہیں ہوئی اسی طرح اتراکھنڈ کی منگلور سیٹ بھی بسپا کے پاس تھی جو اب کانگریس نے جیتی ہے اس لئے کہا جاسکتاہے کہ اتراکھنڈ میں بھاجپا کو زیادہ نقصان نہیں ہوا ہے لیکن ایودھیا میں رام مندر تعمیر سے دیش بھر میں بھاجپا کے حق میں ماحول بنانے کی جو کوشش کی گئی تھی اس کا کوئی اثر جنتا نے نہیں دکھایا یہ چناوی اشو نہیں بن سکا ۔آدھے ادھورے مندر کی تعمیر کروا کر چناوی فائدہ اٹھانے کی بھاجپا کی حکمت عملی الٹے منہ گری ہے اور اب رہی سہی کسر بدری ناتھ میں ہارنے پوری کر دی اس سے راہل گاندھی کی اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ہندوتو پر بھاجپا کا کوئی ٹھیکہ نہیں ہے اگر ہندوتو کا ڈھنڈورہ دن بدن پیٹنے والی بھاجپا ایودھیا بدری ناتھ نہیں جیت سکے تو اس سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے ۔اتراکھنڈ کی دونوں سیٹوں پر ملی ہار بھاجپا کے سینئروں کے لئے ایک بڑا سبق دے گئی ہے ۔پارٹی کے حکمت عملی ساز اگر ابھی نہیں جاگے تو مستقبل میں اس کے لئے چناو¿ مشکل ہو جائے گا ۔کاڈر کے بجائے باہر سے آئے نیتاو¿ں پر داو¿ لگانے سے ورکروں میں ناراضگی کو بھاجپا لیڈر شپ بھاو¿ نہیں دے پائی اسی وجہ سے بدری ناتھ میں کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا عام طور پر جب بھی لوک سبھا یا اسمبلی ضمنی چناو¿ ہوتے ہیں تو زیادہ تر جنتا کا مفاد حکمراں پارٹی کے حق میں رہتا ہے ۔ایسا اس لئے بھی کیوںکہ ہر کوئی چاہتا ہے ان کا نمائندہ حکمراں پارٹی کا ہوگا تو علاقہ میں زیادہ ترقیاتی کام ہوں گے ۔اتراکھنڈ میں اس سے پہلے 15 ضمنی چناو¿ ہو چکے ہیں ان میں 14بار حکمراں پارٹی کی جیت ہوئی تھی ۔بھاجپا سرکار اور اس کی تنظیم دونوں اس ضمنی چناو¿ میں جیت مان کر چل رہے تھے ۔لیکن جنتا کے دل کو وہ ٹٹول نہیں پائے ۔جب تین ماہ پہلے جب لوک سبھا چناو¿ ہوا تھا تو بدری ناتھ سے بھاجپا امیدوار نے 8454 ووٹ سے بڑھت بنائی تھی اتنی کم میعاد میں جنتا کے مزاج میں کیسے تبدیلی آگئی کہ اسمبلی کے ضمنی چناو¿ میں بھاجپا امیدوار کو مار کھانی پڑی یہ بھگوان شیو اور بھگوان وشنو کا سندیش تو نہیں ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟