دلتوں کے نگینہ بنے چندر شیکھر!

نگینہ سیٹ سے ممبر پارلیمنٹ بنے چندر شیکھر دلتوں کے لئے نگینہ بن گئے ہیں کیا؟ لوک سبھا چناو¿ میں دلت لیڈر چندر شیکھر آزاد سے اتر پردیش کے شہر نگینہ (ریزرو) سیٹ پر بھاجپا کے اوم کمار کو ڈیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ ووٹ سے ہرا کر جیت حاصل کی ہے ۔اس سیٹ پر بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار سریندر پال سنگھ چوتھے نمبر پر رہے ۔جنہیں محض 13 ہزار ووٹ ملے ۔یہ اہم ہے کیوں کہ سال 2019 میں بسپا امیدوار گریش چندر نے اس سیٹ پر جیت درج کی تھی تب سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان اتحاد تھا ۔مغربی اترپردیش کے چھتیس سالہ چندر شیکھر کی اس جیت کے کئی معنی ہیں خاص طور پر بہوجن سماج پارٹی کی سیاست کے لئے جو اس چناو¿ میں کھاتا تک نہیں کھول پائی ۔ایک بہن جی کے خیر خواہ کا کہنا تھا کہ مایاوتی قومی س یاست میں آہستہ آہستہ الگ تھلگ ہو رہی ہیں اور چندر شیکھر کی جیت نے انہیں یہ موقع دے دیا کہ پورے بھارت میں اپنی تنظیم مضبوط کریں ۔گوتم نگر کے بادل پور میں مایاوتی کے سیاسی بحران میں یہ سب سے برا دور ہے پارٹی کی کمان سنبھالنے سے لیکر اب تک یہ پہلا موقع ہے جب پارٹی کا ووٹ فیصد درکار نمبر تک نہیں پہونچ سکا ۔پردیش میں کسی سیٹ پر جیتنا تو دور رہا وہ مین لڑائی میں بھی نہیں آسکیں ۔بسپا چیف کو اپنے گھر گوتم بدھ نگر میں بھی بسپا امیدوار کو کامیابی نہیں ملی ۔اب جہاں بسپا کا کوئی بھی ممبر لوک سبھا میں نہیں ہوگا پردیش میں موجودہ بسپا کا ایک ہی ممبر اسمبلی ہے ۔سال 2024 میں بسپا کا اپنے دم پر چناو¿ میں بسپا کو صرف 9.39 فیصد ووٹ ملے او وہ ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی ۔کسی بھی سیٹ پر بسپا مقابلے میں نہیں ا ٓئی ۔اب بہن جی کو نئے سرے سے پالیسی بنانی ہوگی ۔اگلے اسمبلی چناو¿ کی تیاری کرنی ہوگی ۔نتیجے بتاتے ہیں مایاوتی کو اپنی جیت کے جس ووٹ بینک پر بھروسہ تھا وہ اب چندر سیکھر کے پالے میںجاتا نظر آرہا ہے ۔نگینہ میں چندر شیکھر کو 512552 ووٹ ملے جبکہ بسپا امیدوار سریندر پال کو محض 13272 ووٹ ملے صاف ہے کہ جاٹوں نے بھی بسپا کو ووٹ نہیں دیا ۔نگینہ کے علاوہ ڈومریا گنج سیٹ پر بھی آزاد سماج پارٹی نے بسپا امیدوار کو زیادہ ووٹ حاصل کئے ۔جو دلتوں کی قسمت بدلتی سیاست کا اشارہ ہے ۔ڈومریا گنج میں آزاد سماج پارٹی کے امیدوار ابھر سنگھ چودھری کو81305 ووٹ ملے ۔جبکہ بسپا امیدوار محمد ندیم کو محض 35936 ووٹ ملے ۔چندر شیکھر کو لیکر دلت لڑکوں کو ہمیشہ راغب کرتے ہیں خود مایاوتی بھی چندر شیکھر راون کی راہ میں تمام روڑے اٹکانے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔مایاوتی کے مقابلے ان تک حکومت پہونچے دلتوں میں انہیں مقبول بناتی ہے ۔بسپا چیف کا ورکروں سے دوری بنا کر رکھنا اور پارٹی عہدیداران سے اپنی سہولت کے حساب سے ملنا چناو¿ میں ہار ملنے کے بعد کسی پر کاروائی نہ کرنا اب ان کے حمایتیوں کو راس نہیں آرہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بسپا کے ووٹ بینک میں لگاتار گراوٹ آرہی ہے ۔اب چندر شیکھر پارلیمنٹ جار ہے ہیں ۔نارتھ بھارت میں دلت نوجوان ان کے ساتھ آرہے ہین اور اب ان کو موقع ملا ہے تو ان سے اپنی تنظیم کو بڑھاوا دینے کی توقع ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟