افضال انصاری بنام پارس ناتھ رائے!

سٹی اسٹیشن کے سامنے دوکان پر چائے پی رہے اموتوش رائے غازی پور کے سیاسی مزاج کے سوال پر شاعر ابرار کاشف کا یہ شعر :عدالتیں اچھال دیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں بس ایسا ہی ہے اپنا غازی پور ۔یہاں کی گلیوں میں آپ کو ووٹر نہیں ملتے ہیں جہاں ملتے ہیں تو صرف بھومیار ،برہمن ،یادو ،راج بھر،راجپوت،دلت ،ہندو اور مسلمان ۔یہاں ٹکٹ بھی ذات اور مذہب کی بنیاد پر ملتے ہیں ۔یعنی سکے کے دونوں برادری اور دھرم ہی ملے گا ۔تجزیوں کو سمجھنے کے لئے چناوی باتوں سے پہلے سمر کے یودھاو¿ں کی چرچا ضروری ہے ۔بھگوا خیمے نے جموں کشمیر کے لفٹننٹ گورنر منوج سنہا کے قریبی مانے جانے والے پارس ناتھ رائے پر داو¿ لگایا ہے ۔وہیں 2019 میں بسپا سے مرحوم مختار انصاری کے بھائی افضل انصاری بدلے حالات میں اس بار سائیکل پر سوار ہیں ۔بسپا سے ڈاکٹر امیش کمار سنگھ میدان میںہیں ۔غازی پور کی فضا میںجس طرح کے سوال ہیں ان سوالوں پر و وٹروں کے جیسے خیالات ہیں ان کا ذہنی طور پر تجزیہ کریں تو صاف ہو جاتا ہے یہاں بھاجپا اور سپا کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے ۔البتہ بسپا لڑائی کو سہ رخی بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے ۔پرمبیر چکر ونر ویر عبدالحمید کی سرزمین غازی پور کا ذکر آتے ہی لوگوں کو یاد آتے ہیں وشوناتھ سنگھ گھمیری 1962 میں ایم پی بنے تھے ۔انہوں نے صرف غازی پور میں ہی نہیں پورے پروانچل کے حالات ،بھکمری ،بے روزگاری کے درد کو جس طرح سے پارلیمنٹ میں رکھا تھا وہ سب کچھ لوگوں کی دعاو¿ں پر ہوتا ہے ۔بھکمری کا درد تو رکھتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ حالت ایسی ہے کہ علاقے کی ایک بڑی آبادی کیلئے بیل کے گوبر سے نکالا اناج ہی غذا کا اہم سہارا ہے ۔یہ سب سن سورگیہ وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے لیکر ہر ممبر کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں ۔اب عام عوام الناس کو سیاسی مزاج اور انداز کی بات چناوی ماحول کے سوال پر لنکا تراہے پر ملے ایک شخص کہتے ہیں کہ بھاجپا امیدوار کو تو کوئی پہچانتا تک نہیں ہے ۔کب تک مودی ،یوگی کے نام پر ووٹ ملیں گے اس پر پاس بیٹھے ایک دوسرے شخص نے طنز میں کہا کہ ہاں مافیہ کو تو سب پہچانتے ہیں ان کے نام پر ووٹ دیا جائیگا ۔پلٹوار کرتے ہوئے پہلا شخض کہتاہے کہ وہ مافیا نہیں تھے وہ غریبوں کے مسیحا تھے ۔اس پر دوسرا شخص کہتا ہے کہ میری جیب سے 100 روپے نکال کر کسی کو 10 روپے دے دینا اسے میسحا نہیں کہتے ۔دراصل یہاں بات مختار انصاری کی ہو رہی ہے ۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ بھلے ہی مختار کی تکلیف دہ موت ہو چکی ہے لیکن چناو¿ تو مختار انصاری کے نام پر ہی لڑا جا رہا ہے ۔وہیں کچھ لوگ منوج سنہا کے وزیر مملکت ریل رہنے کے دوران غازی پور میں ہوئے وکاس کے کاموں کو گناتے ہوئے کہتے ہیں کہ پارس ناتھ رائے تو پہچاننے یا نا پہچاننے بلکہ کمل کے پھول کو تو سب پہچانتے ہیں ۔ووٹ تو اسی کو ملے گا۔ منوج سنہا کے قریبی کہے جانے والے پار س ناتھ رائے کو ٹکٹ دے کر بھاجپا نے سب کو حیت میں ڈال دیا تھا ۔ٹکٹ کے اعلان ہوا تو پارس ناتھ رائے اپنے اسکول میں دستخط کررہے تھے تب انہوں نے کہا تھا کہ میں نے تو ٹکٹ کے لئے کوئی درخواست نہیں دی یہ ٹکٹ منوج سنہا نے ہی دلوایا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟