نہیں ہوگی ایم پی اور ممبران اسمبلی کی نگرانی !

سپریم کورٹ نے بہتر انتظامیہ کیلئے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی 24 گھنٹے ڈیجیٹل نگرانی کرنے کیلئے مرکز کوہدایت دینے والی درخواست کرنے والی مفاد عامہ کی عرضی کو جمعہ کے روز خارج کر دیا ۔بنچ نے عرضی گزار سے سوال کیا کہ کیا عدالت ممبران پارلیمنٹ کی سرگرمیوں پر 24 گھنٹے نظر رکھنے کیلئے ان کے جسم میں کوئی چپ لگا سکتی ہے ۔سماعت کی شروعات میں چیف جسٹس نے دہلی کے باشندے عرضی گزار سریندر ناتھ کندرا سے درخواست کی کہ انہیں ایسے معاملے پر عدالت کا وقت ضائع کرنے کیلئے پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ بھرنا پڑسکتا ہے ۔بنچ نے کہا کہ اگر آپ بحث کرتے ہیں اور ہم آپ سے متفق نہیں ہوتے تو آپ سے 5 لاکھ روپے جرمانہ میصول کی شکل میں وصولے جائیں گے یہ جنتا کے وقت کی بات ہے اور یہ ایک غرور نہیں ہے ۔بنچ نے کہا کہ کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ کیا بحث کررہے ہیں ؟ کہ آپ ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی 24 گھنٹے نگرانی چاہتے ہیں ایسا صرف اس سزا یافتہ مجرم کیلئے کیا جاتا ہے جس کے قانون کے شنکجہ سے بچ کر بھاگنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔پرائیویسی کا حق نام کی کوئی چیز ہوتی ہے اور ہم پارلیمنٹ کے سبھی منتخب نمائندوں کی ڈیجیٹل نگرانی نہیں کر سکتے ۔عرضی گزار سریندر کیندرا نے کہا کہ ایم پی اور ودھائک جو شہریوں کے تنخواہ دار خادم ہوتے ہیں وہ حکمرانوں کی طرح برتاو¿ کرنا شروع کر دیتے ہیں اس پر بنچ نے کہا کہ آپ سبھی ممبران پارلیمنٹ پر ایک جیسا الزام نہیں لگا سکتے ۔سپریم کورٹ نے کہا سبھی جمہوری نظام میں شخص قانون نہیں بنا سکتے اور اسے صرف منتخب ممبران پارلیمنٹ کے ذریعے سے ہی لاگو کیا جاسکتا ہے ۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا تب لوگ کہیں گے ٹھیک ہے ہمیں ججوں کی ضرورت نہیں ہم سڑکوں پر ہی فیصلہ کریں گے اور چوری کے ملزم کو مار ڈالیں گے ۔کیا ہم چاہتے ہیں کہ ایسا ہو ایم پی اور ودھایکوں کی ڈیجیٹل نگرانی کی درخواست کرنے والی عرضی پر غور نہیں کیا جاسکتا ۔بنچ نے کہا کہ عرضی گزار اس معاملے کو آگے بڑھاتا ہے تو اس پر جرمانہ لگایا جائے گا لیکن ہم جرمانہ لگانے سے بچتے ہوئے درخواست کرتے ہیں کہ مستقبل میں ایسی کوئی عرضی دائر نہیں کی جانی چاہیے ۔عرضی گزار نے دلیل دی کہ چنے جانے کے بعد ایم پی اور ودھائک حکمرانوں کی طرح برتاو¿ کرتے ہیں اس پر بنچ نے کہا ہر ایم پی ودھایک کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا ۔آپ کو شخص خاص سے شکایت ہو سکتی ہے لیکن آپ سبھی ممران پارلیمنٹ پر الزام نہیں لگا سکتے ۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ ،جسٹس جے بی پاردیوالہ اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے کہا کہ پرائیویسی کا حق نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟