اس لئے شہریت چھوڑ رہے ہیںہندوستانی !

یوں تو دیش کے باہر پڑھنا اور بسنا ہندوستانیوں کیلئے نیا نہیں ہے، لیکن حالیہ برسوںمیں بڑی تعداد میں ہندوستانیوںنے اپنی شہریت چھوڑی ہے ۔ جب شخصی سہولیات ،روزی روزگار اور معیار زندگی گزر بسر کرنے کی خواہش میں کسی دیش کے لوگ اپنی شہریت چھوڑ کر دوسرے ملکوںمیں جاکر بسنے لگیں تو یہ یقینی طور سے اس دیش کیلئے تشویش کا موضوع ہونا چاہئے۔ شہریوں کی ہجرت کو لیکر لمبے عرصے سے تشویش جتائی جا رہی ہے ۔اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ جمے جمائے کاروبار کو چھوڑ کر دوسرے ملکوںمیں جانا اب عام بات ہو گئی ہے ۔پارلیمنٹ میں دئے گئے ایک تحریری جواب کے مطابق مرکز ی حکومت نے کہا ہے کہ سال 2011سے لیکر اب تک قریب 17لاکھ 50ہزار ہندوستانی اپنی شہریت چھوڑ چکے ہیں۔ اس سال ہی جون تک 87,026لوگ یعنی ہندوستانی ایسا کر چکے ہیں۔ حالاںکہ وزیر خارجہ نے مانا کہ سرکار مانتی ہے کہ دیش کے باہر رہ رہے لوگ ہمارے لئے بہت معنی رکھتے ہیں ان کی کامیابی اور دبدبے سے دیش کو فائدہ پہنچتا ہے ۔وزیر خارجہ نے بتایا کہ ہندوستانیوںنے کل 130سے زیادہ ملکوں کی شہریت حاصل کی ہے ۔ حالاںکہ ہندوستانیوںمیں ابھی بھی امریکن ڈریم سب سے زیادہ پسند ہے اس لئے سال2021میں 78ہزار سے زیادہ ہندوستانیوںنے وہاں کی شہریت لی اس کے بعد آسٹریلیا ،کینیڈا اور برطانیہ کا نمبر ہے ۔ سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق پختہ ڈیٹا یہ بھی بتاتا ہے کہ حال میں دیش کا امیر طبقہ دوسرے دیشوںمیں جاکر بس رہا ہے۔ اسی سال کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اس سال دیش 6500سپر رچ یعنی کروڑ پتی دیش چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ رپورٹ آگے مزید کہتی ہے کہ بھارت ایسے دیشوںمیں لسٹ میں دوسرے نمبر پر ہو سکتا ہے۔ جہاں سب سے زیادہ کروڑ پتی ملک چھوڑ رہے ہیں اس لسٹ میں پہلے نمبرپر چین ہے ۔ حالیہ برسوںمیں آسٹریلیا میں ہندوستانیوں کے تعداد تیزی سے بڑھی رہی ہے ۔ وہاں اب ہندوستانی نژاد لوگوں کی تعدا د چین سے زیادہ ہے ۔ اوراب وہ صرف انگریزوں سے ہی پیچھے ہیں۔ اس سے پہلے ہندوستانی بسنے کے لحاظ سے کینیڈا اور برطانیہ کو خاص تر جیح دے رہے تھے۔ اچھے روزگار کے موقع کیلئے ہندوستانی درمیانی کلاس کی ہجرت برسوں سے ہو رہی ہے ۔لیکن کروڑ پتی طبقہ دبئی اور سنگاپور جیسے ملکوںمیں بسنا پسند کر رہا ہے ۔ ان لوگوںکو بھارت میں گھٹن محسوس ہو رہی ہے ۔ سرکاروں کی خانہ پوری کاروائی ،ٹیکس کا شکنجہ وغیر کچھ وجوہات ہیں۔ جس سے یہ طبقہ پریشان ہے ۔ ای ڈی،سی بی آئی اور انکم ٹیکس کے چھاپوں سے یہ فکر مند ہے۔ روزگار کے گھٹتے مواقع پڑھے لکھے نوجوانوں کا دیش سے باہر جانا اور نوکری کی تلاش کرنا ایک بڑی وجہ ہے ۔ چالیس فیصدی کو ان کی خواہش اور صلاحیت کے مطابق روزگار نہیں ملتا ۔ اس کے علاوہ کئی لوگ عدم تحفظ کے چلتے بھی کہیں اور جانا اور وہاں جاکر بسنا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟