تین سال میں 20ہزار چھوٹے اور منجھولے کارخانے بند !

حکومت نے لوگ سبھا میںپچھلے جمعرات کو بتایا تھا کہ ماہ جولائی 2020سے مارچ 2023تک قریب تین برسوںمیں دیش میں 19687چھوٹی اور منجھولی اور درمیانی قسم کے کارخانے یا صنعتیں بند ہوئیں ہےں یا انہوںنے اپنا پروڈکشن بند کر دیا ۔ لوک سبھا میں ایک ممبرا کلیوگ بنرجی کے سوال کے تحریری جواب میں وزیر مملکت چھوٹی صنعتیں بھانو پرتاپ سنگھ ورما نے یہ جانکاری دی تھی۔ ممبرموصوف نے پوچھا تھا کہ کیا مالی سال2022-23کے دوران 10655ایم ایس ایم ای بند ہوئے ہیں جو پچھلے چاربرسوںمیں سب سے زیادہ ہیں۔ وزیر موصوف نے بتایا کہ انڈسٹریل رجسٹریشن پورٹل کے یہ اعداد و شمار ہیں ۔ انے کے مطابق جولائی2020سے مارچ 2021تک 175ایم ایس ایم ای بند ہوئے یا انہوںنے کام بند کر دیا ۔ وہیں اپریل 2021سے مارچ2022تک 63322ایم ایس ایم ای بند ہوئے تھے ۔ ایسے ہی یکم اپریل 2022سے مارچ 2023تک 13290ایم ایس ایم ای بند ہوئے یا انہوںنے پروڈکشن بند کر دی ۔ اس طرح سے جولائی 2020سے مارچ 2023تک قریب تین برسومیں 19687چھوٹی ،بڑی درمیانی فیکٹریاں بند ہوئیں یا کام بند ہوگیا ۔ مرکزی وزیر نے بتایا کہ این ایس ایم ای کی وزارت دیش ایم ایس ایم ای کو ہر ممد ٹکنالوجی مدد اور اسٹرکچر ڈیولپمنٹ ،ٹیلنٹ ڈیولپمنٹ اور ٹریننگ اور مارکیٹ مدد کے سیکٹروں میں مختلف اسکیموں پر عمل در آمن کرتا ہے ان کے مطابق سرکار نے دیش میں ایم ایس ایم ای کی مدد فراہم کرانے کی کئی پہل کیں ہیں۔ جس میں کاروبار کیلئے5لاکھ روپے کی فوری قرض سہولت ،گارنٹی اسکی،آتم نربھر بھارت فنڈ کے ذریعے سے 50ہزار روپے ریڑی پٹری والوں کو مدد اور ان کیلئے کاروبار کی آسانی کیلئے ایم ایس ایم ای کیلئے فیکٹری رجسٹریشن ایم ایس ایم ای کی کلاسیفیکیشن کی نئی ترمیم ،معیارات اور قواید شامل ہیں۔ یہ نہایت ہی تشویشناک حالت ہے کہ فیکٹریاں بند ہوتی جا رہی ہیں ۔ بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے اور نئی فیکٹریاں قائم نہیں ہو رہی ہیں۔ جو لوگ برسوں سے ان چھوٹے چھوٹے دھندھو میں لگے تھے وہ سب سڑک پر آگئے ۔ جب تک نئی فیکٹریاں نہیں لگیںگے یا پرانی میں کاروبار پھر سے شروع نہیں ہوتے ،بے روزگاری کے مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ سرکار کا اس طرف دھیان نہیں ہے ۔ بے روزگار خاندان کن حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟