کیا سیکس رضامندی کی عمر کم ہونی چاہیے ؟

کیا 18سال سے کم عمر کے لڑکوں کو جنسی تعلق بنانے کی اجازت دینے کا حق ملنا چاہئے؟ خاص کر جب بھارت میں 18سال سے کم عمر والے لڑکے کو بالغ نہیں مانا جاتا ہے ۔بھارت میں انڈین میچوریٹی ایکٹ1875کے مطابق 18سالہ نوجوان بالغ یا نابالغ مانے گئے ہیں۔اور اس کے ساتھ ہی انہیں کئی حقوق بھی دئے گئے ہیں۔ آئین کی 61ویں ترمیم میں18سال کے لڑکوںکو ووٹ ڈالنے ،ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کا حق دیا گیا ہے ۔وہیں اطفال شادی انسداد ایکٹ 2006کے مطابق شادی کیلئے بھارت میں لڑکی کی عمر 18اور لڑکے کی عمر 21سال ضروری بتائی گئی ہے ۔ حالاںکہ اب شادی کی عمر کو بڑھائے جانے پر بھی مرکزی سرکار غور کر رہی ہے۔ اب یہ بحث تیز ہو گئی ہے کہ رضامندی کی عمر کو 18سال سے کم کیا جا نا چاہئے۔ مدھیہ پر دیش ،کرناٹک ہائی کورٹ اس پر اپنا مو قف رکھ چکی ہیں۔ بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ رضامندی سے بنے رومانی رشتوںکو پاکسو ایکٹ کے دائرے میں لانے کو لیکر تشویش ظاہر کر چکے ہیں۔ رضامندی کی عمر پر لاءکمیشن نے خاتون اور فروغ وزارت سے اپنے نظریات رکھنے کو کہا ہے لیکن اس پر ایک سوال یہ بھی کھڑا ہوا ہے کہ اگر رضامندی کی عمر گھٹائی جاتی ہے تو اس سے جنسی جرائم سے بچوں کی حفاظت کیلئے بنے قانون(پاکسو) کے تقاضوں اور بالغ اور نابالغ سے متعلق دیگر قوانین پر بھی اثر پڑے گا۔ جنسی جرائم سے بچوں کی حفاظت کیلئے پاکسو ایکٹ 2012میں لایا گیا تھا ۔ اس میں 18سال سے کم عمر کے لڑکے کو بچہ بتایا گیا ہے۔اور اگر 18سال سے کم عمر کے ساتھ رضامندی سے بھی رشتہ بنائے جاتے ہیں تووہ کرائم کی ضمرے میں آتا ہے ۔ ایسی حالت میں دونوں اگر نابالغ ہیں تب بھی یہی قانون نافذ ہوتا ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ایک پروگرام میں رضامندی سے بنے رومانی رشتوں کے معاملوں کو پاکسو قانون کے دائرے میں لانے پر تشویش ظاہر کی تھی ۔ ایک پروگرام میں چیف جسٹس نے کہا تھا کہ آپ جانتے ہیں کہ پاکسو ایکٹ کے تحت 18سال سے کم عمر کے لوگوں کے درمیان سبھی طرح کی جنسی حرکات جرم ہیں۔ بھلے ہی نابالغوں میں درمیان رضامندی ہو لیکن قانون کی رائے یہ ہے کہ 18سال سے کم عمر کے لڑکوںکے درمیان قانونی معنی میں کوئی رضامندی نہیں ہوتی ۔ انہوںنے کہا کہ جج کے طور پر میں نے دیکھا ہے کہ ایسے معاملے جج صاحبان کے سامنے مشکل سوال کھڑے کر تے ہیں اس مسئلے پر چنتا بڑھ رہی ہے کہ لڑکے لڑکیوں پر ہیلتھ ماہرین کے ذریعے کی گئی ریسرچ کو دیکھتے ہوئے آئین سازیہ کو اس معاملے پر غور کرنا چاہئے۔ اسی پس منظر میں آئینی کمیشن نے مہلا اطفال ڈیولپمنٹ وزارت سے رائے مانگی ہے کہ رضامندی کی عمر گھٹائے جانے کو لیکر الگ الگ رائے سامنے آرہی ہے۔ ایک فریق جہاں چاہتا ہے کہ آج کل کے ماحول میں رضامندی کی عمر گھٹائی جانی چاہئے ۔ وہیں دوسرا فریق اس سے ہونے والی پریشانیوںکے بارے میں تفصیل گنوانے لگ جا تا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟