بی بی سی کی ڈوکومینٹری پر تنازعہ !

ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی پر بی بی سی کی ڈوکومینٹری کے بارے میں بھارت کے وزارت خارجہ نے اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے اور ساتھ ہی بر طانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے بھی اس بارے میں برطانوی پارلیمنٹ میں اٹھے اس سوال کا جواب دیا ہے ۔ واضح ہو کہ بی بی سی نے دو قسطوں کی ایک دستاویزی فلم بنائی ہے جس کا نام ہے :انڈیا :دی مودی کنیکشن ۔اس پہلی قسط 17جنوری کو برطانیہ میں ٹیلی کاسٹ ہو چکی ہے۔ اگلی قسط آج 24جنوری کو ریلیز ہونے جا رہی ہے ۔جہاں قسطوں میںنریندر مودی کے ابتدائی سیاسی کریئر کو دکھایا گیا ہے جس میں وہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہو جاتے ہیں۔ ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان اروندم باگچی نے جمعرات کو میڈیا سے بات چیت کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں یہ صاف کردینا چاہتاہوں کہ ڈوکومینٹری محض ایک پروپیگینڈا پیس ہے اس کا مقصد ایک طرح سے وزیر اعظم کی ساکھ کو نیگیٹو پیش کرنا ہے ۔ جبکہ اسے لوگ پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں ۔فلم یا دستاویزی فلم بنانے والی ایجنسی اور شخص اسی نگیٹی ویٹی کو دوبارہ چلانا چاہ رہے ہیں۔ ترجمان نے بی بی سی کے ارادے پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کیا کہا کہ ہم اس کے پیچھے کے ایجنڈے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ دستاویزی فلم ایک غیر شائع رپورٹ پر مبنی ہے جسے بی بی سی نے وزارت خارجہ کے دفتر سے حاصل کیا ہے ۔ اس دستاویز ی فلم میں نریندر مودی کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے گجرات میں سال 2002میں ہوئے دنگوںمیں کم سے کم 2000لوگوں کی موت پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ ہے کہ مودی گجرات میں تشدد کا ماحول بنانے کیلئے در پردہ طور پر ذمہ دار تھے ۔پی ایم مودی ہمیشہ تشدد کیلئے ذمہ دار ہونے کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں ۔ لیکن جس طرح برطانوی ڈپلومیٹ نے برطانوی وزارت خارجہ کیلئے رپورٹ لکھی ہے اس سے بی بی سی نے بات کی ہے اور وہ اپنی رپورٹ کے نتیجے پر قائم ہیں۔ بھارت کی سپریم کورٹ پہلے ہی وزیر اعظم مودی کو گجرات تشدد میں کسی طرح سے ملوث ہونے کے بارے بری کر چکا ہے ۔اس رپورٹ کو لکھنے والے ایک حکمت عملی ساز بتاتے ہیں کہ ہماری جانچ منصفانہ اور واجب ہے ۔سال 2002میں گجرات میں ایک منظم فسا د میں 2000لوگ مارے گئے تھے یہ بھی ایک حقیقت ہے اس رپورٹ کے بارے میں بی بی سی نے خبر بھی دی تھی ۔ یہ رپورٹ اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹرا کے ذریعے آڈٹ کی گئی تھی اور یہ جانچ کا حصہ تھی۔ رپورٹ کہتی ہے کہ تشدد کا فروغ بھی میڈیا میں آئی رپورٹوں نے کہیں زیادہ تھا۔فسادات کا مقصد ہندو علاقوں سے مسلمانوں کو بھگانا تھا۔ برطانیہ کے ایم پی عمران حسین نے یہ اشو وہاں کی پارلیمنٹ میں اٹھا یا اور پوچھا کہ موجودہ وزیر اعظم رشی سونک ڈپلومیٹس کی اس رپورٹ سے اتفاق رکھتے ہیں جس میں مودی کو تشدد کیلئے سیدھے طور ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔ اس پر وزیر اعظم رشی سونک نے کہا کہ وہ ایم کے ذریعے کئے گئے کردار کشی سے متفق نہیں ہیں۔ بر طانیہ کی سرکار کی اس بارے میں پوزیشن اس وقت سے ہی صاف ہے اور میں عزت مآب ایم کے ذریعے کردار کشی سے بالکل متفق نہیں ہوں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟