بڑھتی جھڑپیں بڑھتی تجارت !

بھار ت اور چین کی سرحدوں پر ایک بار پھر سے کشیدگی بڑھ گئی ہے ۔ اس مرتبہ کشید گی کے مرکز میں لداخ کی جگہ اروناچل پردیش کی سرحدیں ہیں ۔ اس کی وجہ کہ 9دسمبر کی صبح توانگ سیکٹر کے ینگسٹر س میں بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان تشدد آمیز جھڑپیں ہوئیں۔ اس جھڑپ میں کچھ ہندوستانی فوجیوں کو چوٹیں بھی آئیں۔ اس سے پہلے گلوان وادی میں خونی جھڑپ میں 20ہندوستانی جوانوںکی موت ہو گئی تھی ۔ اس بعد دونوں ملکوںمیں کشید گی انتہا ءپر پہنچ گئی تھی۔ گلوان سے پہلے دونوں دیش دوکلام میں قریب ڈھائی مہینے تک ایک دوسرے کے سامنے تنے کھڑے رہے ۔پچھلے سال چین اور بھارت کے درمیان ایک طرف جہاں تعطل بڑھا ہے وہیں دوسری طرف چین پر بھارت کے انحصار میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس درمیان چین سے سامان خریدنے میں بھارت نے قریب 60فیصد تجارت میں اضافہ کردیا ہے۔ آسان لفظوںمیں کہیں تو سال 2014میں بھارت اور چین سے سامان خریدنے پر 100روپے خرچ ہوتا تھا آج یہ بڑھ کر 160روپے ہوگئے ہیں۔ ڈپلومیسی میں کہتے ہیں جس ملک سے خطرہ محسوس ہو اس پر انحصار کم کرلینا چاہئے ۔ایسے ہی وعدے حالیہ دنوںمیں روس یوکرین جنگ کے بعد مغربی ملکوںنے بھی کئے ہیں۔ وہ روس پر اپنی انحصار کو کم کرنے کی مسلسل کوششیں کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ چین کے ساتھ سرحدوں پر ٹکراو¿ کے باوجود بھارت اپنا انحصار کم نہیں کر رہا ہے؟ وہ کون سے سامان ہیں جو بھار ت میں چین سے سب سے زیادہ خریدے جاتے ہیں؟ اس راستے پر اگر بھارت چلتا رہا تو اسے مستقبل میں کئی طرح کی چنوتیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ بھارت نے سال2021-22میں دنیا بھر کے 216ملکوں اور علاقوںسے سامان خریدا ہے جس پر بھارت نے 61305کروڑ امریکی ڈالر خرچ کئے ہیں۔ بھارت کے تجارت و صنعت وزارت کے اعداد وشمار کے مطابق اس خرچ میں سب سے زیادہ فائدہ چین کو ملا۔بھار ت کے کچھ در آمدات نے چین کی حصہ داری 15.42فیصد رہی ٹاپ کے دس ملکوںمیں چین کے علاوہ متحدہ عرب امارات،امریکہ ،عراق ،سعودی عرب ،سوٹزر لین، ہانگ کانگ ،سنگاپور،انڈونیشیا اور کوریا شامل ہیں ۔بھارت چین تازہ تنازعہ کے درمیان کل درآمدات میں کس دیش کا کتنا فیصدی حصہ ہے ؟ چین پر بھارت کے انحصار کے پیچھے ماہر اقتصادیات صنعتی پالیسی نہ ہونے کو ایک بڑی وجہ مانتے ہیں۔ بی بی سی ہندی سے بات چیت میں ماہر اقتصادیات سنتوش نیرمان کہتے ہیںپچھلی سرکار نے 2011میںنئی مینوفیکچرنگ حکمت عملی بنائی تھی اسے وہ لاگو نہیں کرپائی ۔ 1992سے 2014تک بھارت کی جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا تناسب 17فیصد بنا رہا لیکن 2014کے بعد اس میں 203فیصد کمی درج کی گئی ۔ آسان لفظوں میںکہیں تو 100روپے میں سے 15روپے کا سامان بھارت اکیلے چین سے خرید تا ہے ۔ اس میں الیکٹریکل ،مکینیکل مشینری ،کل پرزے ساو¿نڈ ریکارڈ ،ٹیلی ویژن اور دوسری کئی چیزیں شامل ہیں۔ ٹاپ 10چیزوں کی بات کریں تو اس میں الیکٹرونک سامان کے بعد نیو کلیر ریئکٹرس ،بائلر آرگینک کیمیکل پلاسٹک کا سامان ،کھاد اور گاڑیوں سے جڑا سامان ،کیمیکل سامان آئرن اسٹیل کا سامان اور الومینیم شامل ہیں اگر تجارت کی بات کریں تو یہ سال 2014-15میں قریب 48ارب ڈالر کا تھا جو سال 2021-22میں بڑھ کر قریب 73ارب ڈالر کا ہو گیا ۔ ہمیں چین پر انحصاریت گھٹانی ہوگی اور جنتا کو چینی سامان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، بھلے ہی دیشی مہنگا سامان کیوں نہ خرید نا پڑے ۔ (انل نریند)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟