ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟

سپریم کورٹ نے کہا کہ شخصی آزادی کی مثال پر اگرقدم نہیں اٹھاتے تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ بڑی عدالت شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے جڑے معاملوں میںکاروائی نہیں کرتی تو یہ آئین کی دفعہ 136کے تحت ملے اختیارات کی خلاف ورزی ہوگی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی بنچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک حکم کو خارج کرتے ہوئے سوال کیا کہ ہم یہاں کیوں ہیں؟ اگر ہم اپنی ضمیر کی نہیں سنتے ہیں بنچ نے کہا کہ سپریم کورٹ کیلئے کوئی بھی معاملہ چھوٹا نہیں ہوتا ۔اگر ہم شخصی آزادی سے جڑے معاملوں میں کاروائی نہیں کرتے اور راحت نہیں دیتے تو ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟ سی جے آئی چندر چوڑ نے یہ رائے زنی بجلی چوری کے ایک ملزم کی ضمانت عرضی پر سماعت کے دوران کی ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کیلئے کوئی معاملہ چھوٹا نہیں ہے ۔ چیف جسٹس کی اس رائے زنی کو وزیر قانون کیرن رجیجو کو جواز سمجھا جا رہا ہے ۔ کیوں کہ انہوںنے ایک دن پہلے ہی پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو ضمانت جیسے معاملوں کی سماعت نہیں کرنی چاہئے بلکہ آئینی معاملوںکی سماعت تک محدود رہنا چاہئے۔معاملوں میں عرضی گزار کو بجلی چوری کے نو معاملوںمیں ہر میں دو دو سال کی سزا سنائی گئی تھی۔بنچ نے فیصلہ کیا کہ سزائیں الگ الگ چلیںگی اس سے اس کی کچھ سزا 18سال ہو گئی ۔عرضی گزار اس کے خلاف بڑی عدالت پہنچا تھا ۔ بنچ نے کہا کہ معاملے کے پہلو بڑی عدالت کو ہر شہری کو ملے ،زندگی شخصی آزادی کے بنیادی حقوق کے محافظ کی شکل میں اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کا ایک اور موقع ہے ۔ایک موقع ضرور ملنا چاہیے ۔ بنچ نے کہا کہ اگر کوئی ایسا نہیں کرے گا تو ایک شہری کی آزادی ختم ہو جائے گی۔شہریوں کی شکایتوں سے جڑی چھوٹے اور ریگولر معاملوں میں اس عدالت کے دخل سے جوڈیشری ماہرین اور آئینی مسئلوں سے متعلقہ پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔سی جے آئی چندر چوڑ اور جسٹس پی ایس نر سمہا کی بنچ نے معاملے کو چوکانے والا قرار دیا ۔بنچ نے پایا کہ اپیل گزار تین سال کی سزا کاٹ چکا ہے ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے سزا ساتھ ساتھ چلنے کے اس کی درخواست کو نہیں مانا تب اس نے بڑی عدالت کا رخ کیا ۔ سپریم کورٹ نے اس کی فوراً رہائی کو حکم دیا ۔بنچ نے سماعت کے دوران مدراس ہائی کورٹ نے سابق جج جسٹس ایس متو کی مدد مانگی ۔وہ اتفاق سے ایک دوسرے معاملے کیلئے عدالت میں تھے ۔سینئر وکیل میتو نے اسے ایک غیر معمولی حالت بتایا اور انہوںنے ہائی کورٹ کے حکم کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ یہ بجلی چوری کیلئے ایک طرح سے عمر قید ہے ۔سی جے آئی نے کہا کہ اس لئے سپریم کورٹ کی ضرورت ہے۔بجلی چوری قتل کے برابر کا معاملہ نہیں ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟