جواب لمبا پر حقائق کی کمی!

سپریم کورٹ نے منگل کے روز کہا کہ بلقیس بانو اجتماعی آبروریزی معاملے میں 11قصور واروں کی رہائی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر گجرات حکومت کا جواب بہت ہی بے دلائل ہیں جس میں کئی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے لیکن حقائق کے پہلو پر بیان قلمبند نہیں ہیں ۔ بڑی عدالت نے عرضی گزاروں کو گجرات حکومت کے حلف نامے پر اپنا جواب داخل کرنے کیلئے وقت دیا ہے اور کہا کہ وہ عرضیوں پر پھر 29نومبر کو سماعت کرے گی ۔ جن میں 2002کے معاملے میں قصورواروں کی سزا میں رعایت اور انکی رہائی کو چیلنج کیا گیاہے ۔ اس سے پہلے گجرات سرکار نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ سی بی آئی نے معاملے کی چھان بین کی اس نے سزا میں چھوٹ کیلئے مرکزی حکومت سے اجازت لی تھی ۔ قصورواروں کو ان کے چال چلن کی بنیاد پر رہا کیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ریاستی حکومت کا جواب لمبا ہے لیکن حقائق کی کمی ہے ۔اس میں کئی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے لیکن اصلی باتیں غائب ہیں ۔ہم نے دیکھا ہے کہ کئی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے لیکن اصل حقائق ہونے چاہیے ۔ کورٹ نے کہا کہ ضمیر کا استعمال کہاں ہواہے؟جب ہمارے پاس آنے سے پہلے اخبار وں میں دیکھنے کو ملا معاملہ گجرات میںہوئے فسادات سے جڑا ہے جس میں بلقیس و ان کے خاندان کے سات لوگ مارے گئے تھے۔جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے کہا کہ میں نے کوئی ایسا جوابی حلف نامہ نہیں دیکھا ہے جہاں فیصلوں کی ایک لمبی چوڑی تشریح کی گئی ہوبلکہ حقائق پر مبنی بیان دیا جانا چاہیئے تھا وہ انتہائی بچکانا جوا ب ہے ۔حقائق والا بیان کہاںہے؟محکمے کا استعمال کہاں ہے؟بنچ نے ہدایت دی کہ گجرات سرکار کے ذریعے دائر جواب سبھی فریقین کو دستیاب کرایا جائے ۔بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کی سینئر لیڈر سبھاشنی علی اور دیگر عورتوں نے قصورواروں کوسزا میں چھوٹ دیئے جانے اور ان کی رہائی کے خلاف مفاد عامہ کی عرضی دائر کی ہے۔ شروع میں عرضی گزاروں کی طرف سے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ انہیں جوا ب داخل کرنے کیلئے وقت چاہئے ۔جسٹس رستوگی کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے وہ گجرات سرکار کے جواب کو پڑھ لیں یہ اخباروں میں صاف دکھائی دے رہا ہے ۔انہوں نے سرکار ی وکیل تشار مہتا سے کہا کہ انہوں نے ایسا کوئی جوابی حلف نامہ نہیں دیکھا ہے جس میں کئی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہو ۔ریاستی حکومت نے 10اگست 2022کو قصورواروں کی رہائی کو حکم دیا تھا ۔ان قصور واروں کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی عرضیاں داخل کی گئی تھیں۔ریاستی حکومت نے حالاںکہ دعویٰ کیا تھا کہ قانون کے عرضی ٹکنے والی نہیں ۔یہ پی آئی ایل مجرمانہ معاملے سماعت کیلئے نہیں ہے یہ عرضی سیاسی سازش کا حصہ ہے اسے خارج کیا جانا چاہئے عرضی گزروں کی طرف سے کپل سبل نے دلیل دی تھی کہ یہ اچانک ہوا واقعہ ہے مجرموں نے گینگ ریپ اور قتل کی واردات کو انجام دیا ہے اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ واردات کے بارے میں ذکر کر رہے ہیں معاملے میں قصور واروں کو سز امیں مل چکی ہے ۔یہاں سوال ہے سزا میں جو چھوٹ دی گئی اور رہائی کا حکم دیا گیا ہے وہ صحیح ہے یا نہیں ؟وہ قانون کے دائرے میں ہے یا نہیں ؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟