ہم لکشمن ریکھا سے واقف ہیں!

ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی ستائش کرتے ہیں کہ انہوںنے نوٹ بندی کی عدلیہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ نوٹ بندی نے ہزاروں کنبوں کو اجاڑ دیا ،سیکڑوں لوگوں نے تو بینکوں کے باہر لائنوں میں لگ کر اپنی جان قربان کردی ۔ان خاندانوں کی تو زندگی ہی بدل گئی ،سرکار نہیں چاہتی تھی کہ نوٹ بندی پر سپریم کورٹ کسی طرح غور کرے ۔ اٹارنی جنرل اور سولیسیٹر جنرل نے مرکزی سرکار کی طرف سے کہا کہ نوٹ بندی پر سماعت غیر ضروری ہے کیوں کہ یہ چھ سال پہلے کا فیصلہ ہے اور اس میں کچھ نہیں بچا ۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ معاملہ صرف اکیڈمک نہ ہو ۔ ہماری ڈیوٹی ہے کہ جو سوال ہمیں ریفر کئے گئے ہیں اس کا جواب دیں ۔جسٹس بوپنا نے کہا کہ جو ہو چکاہے وہ واپس نہیں ہو سکتا ہے لیکن مستقبل کیلئے کیا ایسا ہو سکتا ہے یہ دیکھا جانا چاہئے ۔ 2016میں کی گئی نوٹ بندی کے خلاف داخل عرضی پر سپریم کورٹ میں بدھوار کو پانچ ججوںکی آئینی بنچ کے سامنے سماعت شروع ہوئی اس دوران عدالت نے مرکزی سرکار اور ریزرو بینک سے حلف نامے کے ذریعے جواب مانگا ۔ عرضی گزار وکیل پی چدمبرم نے دلیل دی تھی کہ مرکزی سرکار کی طرف سے ریزرو بینک کو اس بارے میں لکھے گئے خط اور آر بی آئی کی سفارش وغیرہ سے متعلق دستاویزا ت مانگے جائیں ساتھ ہی کہا کہ آر بی آئی ایکٹ کے تحت مرکزی سرکار کو پوری کرنسی منسوخ کرنے کا حق نہیں ہے ۔ اس دلیل کے پیش نظر حلف نامہ دینے کو کہا گیا ہے۔ عدالت نے مرکزی سرکار سے کہا کہ وہ اپنے حلف نامے میں ضروری دستاویزات کے بارے میں جانکاری مہیہ کرائیں ۔ وہ آر بی آئی کی بورڈ میٹنگ کے دستاویزات دیکھنا چاہیں گے جو نوٹ بندی سے پہلے تیار ہوئے تھے ۔ عدالت نے معاملے کی سماعت کیلئے اگلی تاریخ 9نومبر طے کردی ہے ۔مرکزی سرکار کی طرف سے پیش سولیسیٹر جنرل توشار مہتا نے کہا کہ اکیڈمک اشوز پر عدالت کا وقت برباد نہیں کیا جانا چاہئے تبھی وکیل نے کہا کہ پچھلی بنچ نے کہا تھا کہ اس معاملے کو آئینی بنچ دیکھے ۔معاملے کی سماعت کے دوران مدعی کے وکیل پی چدمبرم نے کہا کہ نوٹ بندی کے سبب لوگوں کی نوکری چلی گئی کئی بے روزگار ہو گئے اگر نوٹ بندی کرنی ہی تھی تو بیک اپ میں کیش ہونا چاہئے تھا۔کیا اس فیصلے کیلئے ضمیر کا استعمال کیا گیا ؟کیا یہ اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں تھا ؟ دستاویز کا محاسبہ ہونا چاہئے کہ سرکارنے آربی آئی کو جو صلاح دی اس سے متعلق دستاویزات دیکھیں جائیں ۔ پارلیمنٹ میں بھی یہ دستاویز دکھائے نہیں گئے ۔ سپریم کورٹ بڑی عدالت ہے ایسے میں یہاں دیکھے جائیں ۔ججوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ جانتے ہیں کہ لکشمن ریکھا کہاں ہے ، لیکن جس طرح سے اسے کیا گیا تھا اس کی پڑتال کی جانی چاہئے ۔ہمیں یہ طے کرنے کیلئے وکیل کو سننا ہوگا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!