سلمان رشدی پر حملہ :ہدی متار کون ہے؟

نیو یارک میں مشہور مصنف سلمان رشدی پر حملہ کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا 24سالہ مشتبہ نوجوان ہدی متار کی ہمدردی شیعہ کٹر پسندوں اور ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کور کے مقاصد کے تئیں تھی ۔میڈیا میں آئی خبروں میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیو یارک اسٹیٹ پولیس نے مشتبہ کی پہچان نیو جرسی کے باشندے ہدی متارکے طور پر کی ہے ۔مغربی نیو یارک میں موٹاکوا سنٹی ٹیوشن میں لیکچر دینے کے دوران حملہ آور نے اسٹیج پر چڑھ کر رشدی پر چاقو سے حملہ کیا بتا یا جاتا ہے کہ حملہ آور نے کچھ ہی سیکنڈ میں آٹھ سے زیادہ بار رشدی پر حملہ کیا ۔این بی سی نیوز کے مطابق حملے کی جانچ سے وابسطہ ایک افسر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ملزم ہدی متارکے سوشل میدیا اکاو¿نٹ کی پرائمری جانچ سے پتا چلا ہے کہ وہ شیعہ کٹر پسند اور اسلامی ریولیوشنری گارڈ (ایران)کے تئیں عقیدت رکھتا تھا ۔ اب تک متار اور اسلامی ریوولیوشنری سے سیدے تعلق ہونے کی کوئی جانکاری تو نہیں ملی ہے لیکن اس کے موبائل فول کے میسجنگ ایپ سے ایران کے مارے گئے کمانڈر قاسم سلیمانی اور ایران حکومت کے تئین ہمدردی رکھنے والے عراقی شدت پسندوں کی تصویر ملی ہے ۔سلیمانی ایک سینئر ایرانی فوجی افسر تھے جن کو سال 2020میں ہلاک کر دیا گیا تھا ۔صحافی جوشوا گڈمین اپنے خاندان کے ساتھ مغربی نیو یارک میں میٹاکوا انسٹی ٹیوشن گئے تھے لیکن یہاں ان کے سامنے مصنف سلمان رشدی پر ہوئے حملے کی واردات ہوئی ایک نیوز ایجنسی کے صحافی گڈ مین بھی اس پروگرام میں موجود تھے جہاں رشدی ایک سمپوزیم میں شامل ہونے پہنچے تھے ۔ صحافی نے اپنے موبائل فون سے واقعے کی تصویریں لیں اور اپنے انسٹی ٹیوٹ پر ہوئے حملے کی ویڈیوں بھی بھیجے ۔ وہیں میٹاکوا کاو¿نٹی کے ایگزیکٹیو پال ویڈل نے ایک بیان میں کہا کہ یہ مایوس کن ہے ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں ہم دوسروں کے الگ نظریات کو نہیں سن سکتے ۔ خاص کر انسٹی ٹیوٹ جیسی جگہ جہاں دنیا بھر کے مبصرین اپنے تجربات رکھنے آتے ہیں ۔ادھر کچھ ایرانیوں نے اس حملے کی تعریف بھی کی ہے اور کچھ نے سلمان رشدی پر حملے کو لیکر ملی جولی رائے دی ہے ۔تہران میں کچھ لوگوں نے مصنف پر حملے کی تعریف کی ایک شخص رضاامیر ی نے کہا کہ میں رشدی کو نہیں جانتا لیکن مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی ہے کہ ان پر حملہ کیا گیا ہے ۔کیوں کہ انہوں نے اسلام کی توہین کی ہے ۔حالاںکہ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں تشویش ہے کہ ایران دنیا سے اور کٹ جائےگا ۔جیو گرافائی ٹیچر مہاشد براتی نے کہا کہ میں مانتا ہوںکہ جنہوں نے ایسا کیا وہ ایران کو الگ تھلگ کر نے کی کوشش کررہے ہیں رشدی پر حملے کے بعد میزبان ادارے میں سیکورٹی اور احتیاط کر لیکر سوالیہ نشان کھڑے ہونے لگے ہیں ۔نیو یارک پوسٹ کی خبر کے مطابق 2001میں رشد ی نے اپنے آس پاس سیکورٹی کا گھیرا زیادہ تنگ ہونے کی شکایت کی تھی انہوں نے کہا تھا کہ اپنے آس پاس بہت سیکورٹی دیکھ کر تھوڑی دقت ہوتی ہے۔ (انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟