گنگا میں اتنی لاشیںکہ گنتی مشکل !

اتر پردیش میں گنگا کنارے لاشوں کا ملنا جاری ہے ۔پریاگ راج میں اکچھینگ ویل پور دھام کے پاس بڑی تعداد میں لاشیں دفنائی گئی ہیں ۔حالت یہ ہے کہ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صرف لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی ہیں ۔یہاں قریب ایک کلو میٹر کی دوری میں دفن لاشوں کے درمیان ایک میٹر کا فاصلہ بھی نہیں ہے ان لاشوں کے کنارے جھنڈے اور ڈنڈے بھی گاڑ دئیے گئے ہیں یہی نہیں کہ لاشوں کے ساتھ آنے والے کپڑوں اور دیگر سامان بھی وہیں چھوڑ دئیے گئے ہیں ایسے میں گنگاکنارے کافی گندگی بڑھ گئی ہے ۔پولیس کا پہرہ بھی بھی کوئی کام نہیں آرہا ہے ۔انتم سنسکار کا سامان بھی بہت مہنگا ہو گیا ہے ۔گھاٹ پر پوجا پارٹ کرانے والے پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پہلے رو یہاں آٹھ سے دس ڈیٹ باڈی آتی تھیں لیکن پچھلے ایک مہینہ سے ہر روز 60 سے 70 ڈیٹھ باڈیز آرہی ہیں کسی رو تو ان کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے ۔ایک مہینہ میں یہاں چار ہزار سے زیادہ لاشیں آچکی ہیں ۔انتظامیہ کی روک کے باوجود لاشیں فرقہ کے لوگ ہی یا ان کے رستہ دار خوددفنا رہے ہیں ۔گھاٹ پر موجود پنڈت کہتے ہیں شو سمپردائے میں گنگا کنارے لاش دفنانے کی پرانی روایت ہے ۔اسے روکا نہیں جا سکتا ۔ا س سے لوگوں کے مذہبی جذبات پر ٹھینس پہوچے گی ۔دھام پر پروہیت کا کام کرنے والے شیوبرن تیواری بتاتے ہیں کہ عام دنوں میں یہاں آنے والے غریب لوگ ڈیٹ باڈی لیکر آتے ہیں ان کے پاس کھانے کے پیسہ بھی نہیں ہوتے اور وہ داہ سنسکار کا خرچ نہیں اٹھا پاتے اس لئے وہیں دفناتے ہیں جو جگہ ان کے لئے بہتر ہوتی ہے ۔وہ لاشوں کو باقاعدہ داہ سنسکار کرتے ہیں لیکن کورونا نے جب سے تیزی پکڑی ہے تب سے اکیلے شرانگیشور پور دھام میں روزانہ 60 سے 70 لاشیں آرہی ہیں ۔شیوبرن نے آگے بتایا کورونا کے ڈر کے سبب کافی دن تک گھاٹ سے پنڈوں -پروہتوں نے بھی اپنا دیرہ ہٹا لیاہے ۔وہ ڈرے ہوئے تھے کہ ان کو کورونا نہ ہو جائے ایسے میں جو جیسے آیا جہاں جگہ دیکھی وہیں لاشوں کو دفنا دیا ۔کوئی روک ٹوک نہ ہونے کے سبب گنگا گھاٹ کے کنارے جہاں لوگ آکر اسنان یا دھیان کرتے تھے وہاں تک لوگوں نے لاشیں دفنا دی ہیں ۔کورونا انفیکشن کے مریضوں کے انتم سنسکار کے لئے شمشانوں میں جس طرح لوٹ گھسوٹ جاری ہے ۔موٹی رقم لی جارہی ہے اور گھنٹوں قطاروں میں لگنا پڑ رہا ہے ۔یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ جن دنوں میں یہ سب دیکھنے کو مل رہا ہے وہ وبا کی ضد میں بڑھ رہی سرکاریں دعوے کتنے ہی کیوں نہ کرتی رہیں دیہاتی علاقوں میںحالات قابو میں ہیں ۔علاج کے سارے بندوبست ہیں لیکن لاشوں کے ڈھیر کی اصلیت اجاگر کرنے کے لئے کافی ہے اب اس میں زیادہ شبہہ نہیں رہ گیا ہے کہ انفیکشن کی جانچ ،علاج سے لیکر انتم سنسکار تک میں سرکاروں کی لاپرواہی دکھائی دی ۔یہ لاشیں اسی کا نتیجہ ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟