ویکسین لینے کے بعد بھی کوروناسے متاثر ہو رہے ہیں

کچھ لوگ ویکسین لینے کے بعد بھی کورونا کو متاثر ہو رہے ہیں۔ آپ کے ذہن میں سوالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں ویکسین لینے سے کیا فائدہ ہے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ویکسین سے بچاو¿ صرف ویکسین ہے۔ یہ انفیکشن سے بچاتا ہے اور جب انفیکشن ہوتا ہے تو بیماری کو شدید نہیں ہونے دیتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کے بعد انفیکشن کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ فی الحال وائرس میں اتپریورتنک بہت زیادہ ہورہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ، جو ویکسین دی جارہی ہے وہ موجودہ مختلف حالتوں کے خلاف موثر نہیں ہوسکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مناسب اینٹی باڈیز تیار نہیں کی جارہی ہیں۔ اگر یہ مائپنڈوں کی وجہ سے ہو رہا ہے تو اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ کوویڈ ماہر ڈاکٹر انشومن کمار نے بتایا کہ فی الحال جو بھی وائرس کی ویکسین ہے وہ انٹرماسکلر انجیکشن ہے ، جو پٹھوں میں دی جاتی ہے۔ یہ خون میں جاتا ہے اور وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز بناتا ہے۔ یہ ویکسین کے جسم میں بنیادی طور پر دو قسم کے اینٹی باڈیز تیار کرتا ہے۔ پہلا ö امیونوگلوبلین ایم ، طبی لحاظ سے (جی ایم کہا جاتا ہے)۔ دوسرا امیونوگلوبلین جی تشکیل دیتا ہے ، جسے آئی جی جی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر انشومن نے کہا کہ ہمارا جسم پہلے وائرس کے انفیکشن کے خلاف آئی جی ایم بناتا ہے۔ آئی جی ایم جسم میں آہستہ سے تشکیل پاتا ہے اور یہ جسم میں طویل عرصے تک قائم رہتا ہے۔ یہ آئی جی جی کورونا وائرس کی ممکنہ استثنیٰ کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ اینٹی باڈی ہمارے خون میں موجود ہے اور کسی بھی نئے انفیکشن کے خلاف سرگرم ہوجاتی ہے۔ گنگارام اسپتال کے محکمہ مائکروبیالوجی کے ایچ او ڈی ڈاکٹر چند واٹل نے بتایا کہ ایک اور امیونوگلوبن اے بھی ہے ، جسے آئی جی اے کہا جاتا ہے۔ اس کا ہونا بھی ضروری ہے۔ لیکن یہ اینٹی باڈی میکوزا میں بنی ہے۔ یعنی ناک ، منہ ، لینگ ، آنت کے اندر ایک خاص قسم کا استر ہوتا ہے ، جس پر یہ وائرس کو قائم نہیں رہنے دیتا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ ویکسین میں کتنا آئی جی اے بنایا جارہا ہے جو ابھی دیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر انشومن نے کہا کہ جب کورونا کی ناک کی ویکسین آجائے گی تو شاید یہ زیادہ موثر ہوگی۔ کیونکہ نام سے کورونا وائرس کا اندراج زیادہ ہوتا ہے۔ جب ویکسین وہاں سے گرے گی تو اینٹی باڈی میکوجا کے قریب بن جائے گی اور پھر وہ خون میں جاکر وہاں بھی اینٹی باڈیز بنائے گی۔ اس کے بعد یہ وائرس کے خلاف زیادہ موثر ثابت ہوگا اور ویکسینیشن کے بعد انفیکشن کا امکان کم ہے۔ ڈاکٹر انشومن کا کہنا ہے کہ ناک سے نمونہ لیا گیا ہے تاکہ اس کی نشاندہی کی جاسکے کہ کسی کی کورونا ہے یا نہیں۔ ناک کے قریب میوکوزا میں نہیں۔ لہذا وائرس ناک کے میوکو میں چپک جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وائرس میکوزا تک پہنچ جاتا ہے تو نتیجہ مثبت آتا ہے لیکن وہ جسم کے اندر گھس نہیں سکتا۔ کیونکہ خون میں موجود اینٹی باڈیز اس کے خلاف سرگرم ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے انفیکشن ہونے کے بعد بھی ویکسین لی ہے ، وہ بیماری ہلکی یا معتدل رہتی ہے۔ وہ سنجیدہ یا سنجیدہ نہیں ہے۔ یہ ویکسین کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟