الزام جانچ والے ملزم کو بری کرنے کی بنیاد نہیں!

دہلی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ الزام کی جانچ کے ملزم کو بری کرنے کی بنیاد نہیں ہو سکتی ہے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو لوگوں کو عدلیہ پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا یہ کہتے ہوئے خودکشی کے لئے اکسانے کے معاملے میں ساس نند کو بری کرنے کے حکم کو منسوخ کر دیا ۔اور نئے سرے سے جانچ کرانے کا حکم دیا اس نے مانا کہ اس معاملے میں جانچ افسر کا رول مشتبہ رہا ہے اور نچلی عدالت نے بھی حقائق صحیح طریقہ سے نہیں پڑھا ۔جسٹس سبرا منیم پرساد نے پولیس سے متوفی کی ماں سروج بھولا کی ایس ڈی ایم کے سامنے دو جولائی 2015کو دئیے گئے بیانات کی بنیاد پر جانچ کرنے کی ہدایت کی ساتھ ہی کسی دیگر جانچ افسر سے جانچ کرانے کو کہا ہے ۔جو انسپکٹر سطح کے نیچے کا نہ ہو انہوں نے اس حقیقت کی جانچ کرنے کو کہا ہے کہ کیا یہ معاملہ خودکشی کے لئے اکسانے کی نیت اور محض قتل کا معاملہ بنتا ہے یا نہیں جسٹس نے کہا کہ جانچ ایجنسی کی لاپرواہی یا چوک ملزم کے حق میں زیادتی ہے توعدالت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صحیح جانچ کرانے ۔عدالت کو اس حقیقت کے تئیں اپنی آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیے کہ وہی متاثرہ ہے۔ جو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور انصاف چاہتے ہیں انہوں نے کہا اگر مورد الزام و لاپرواہی سے پہلے جانچ کے سبب ملزم بچ جاتا ہے تو عدالت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے عدالت نے موجودہ معاملے میں بلا امتیاز جانچ ہونے کے امکان ہونے کے باوجود نچلی عدالت میں پھر سے جانچ کے احکامات نہیں لئے معاملے مین پہلی نظر میں ثبوت ہے کہ متوفی کو سسرال میں جہیرزی اذیت کا سامنا کرنا پڑا ۔سیشن جج نے اپنے فیصلے میں مانا کہ جانچ میں سنگین لاپرواہی ہے ۔اس کے باوجود انہوں نے جہیزی قتل کے جرم پر غور نہیں کیا ۔عدالت نے کہا ہر معاملے میں مجسٹریٹ کی ابتدائی سماعت میں یہ یقینی کرنا چاہیے کہ جانچ ٹھیک طرح سے ہو اور ملزم بچ نہ سکے اس معاملے میں حقائق سے صاف ہے کہ عرضی گزار نے وقتاً فوقتاً جوائنٹ پولیس کمشنر و پولیس کمشنر کو جانچ افسر کے خلاف شکایت کی تھی اور اس حقیقت پر بھی توجہ نہیں دی گئی کہ پولیس نے ایس ڈی ایم کے دوبارہ کہنے کے دس ماہ بعد معاملہ درج کیا ۔عرضی گزار نے الزام لگایا تھا کہ ان کی لڑکی آنچل چھبیس اپریل 2012 کو شادی ہوئی تھی ۔سسرال کے حق میں اسے جہیز کے لئے ٹارچر کیا کرتا تھا اور شادی کے قریب ڈھائی برس بعد چوبیس اکتوبر 2014 کو آنچل کی لاش پنکھے سے لٹکی ملی تھی پولیس نے ان کے بیان ایس ڈی ایم کے سامنے درج نہ ہونے کے باوجود اسے اقدام قتل کا معاملہ بتاتے ہوئے ایف آئی آردرج نہیں کی تھی انہوں نے پھر ایس ڈی ایم کے سامنے شکایت درج کی پولیس نے دس مہینہ کے بعد مقدمہ درج کیا جانچ میں لاپرواہی سے بری ہو گئے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟