تاکہ پاگل ٹرمپ نیوکلیائی حملہ نہ کر سکے!

امریکی پارلیمنٹ کمپلیکس (کیپٹل ہل )میں تشدد کے بعد موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پارٹی کے رپبلکن ایم پی نے بھی ڈیموکریٹ نمائندوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے ان پر مقدمہ چلانے کی مانگ کی ہے ۔یہ اگلے ہفتہ پارلیمنٹ میں آسکتا ہے ۔اس درمیان ٹرمپ کے قریبی چار اوروزراءنے احتجاج میں استعفیٰ دے دئیے ہیں ۔ان میں وزیرتعلیم ٹرانسپورٹ وزیر اور وزیرصحت وغیرہ شامل ہیں ۔یہ تینوں وزیرخاتون ہیں جبکہ وزیرتعلیم دی ووس نے کہا کہ یہ حملہ میرے لئے مایوس کن رہا ٹرانسپورٹ ایلن چاو¿ نے کہا کہ وہ تشدد سے بے حد دکھی ہیں ۔ایسے ہی میکیسہ نے کہا میں مانتی تھی کہ وبا کے چلتے ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار منتقلی تک مجھے وزار ت صحت میں معاون وزیر رہنا چاہیے تھا لیکن جھگڑوں کے بعد میرا ضمیر جاگ گیا ادھر ڈیموکریٹ ممبران کے ذریعے مقدمہ چلانے کی بات کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر حکام نے بھی 25ویں ترمیم کے ذریعے (دفعہ 4)ٹرمپ کو کیبنیٹ سے ہٹانے کے امکان پر غور خوض کیا نائب صدر مائک پینس نے ٹرمپ سے تعلقات خراب ہونے کے بعد بھی ترمیم سے انکار کیا ۔ادھر ایوان نمائندگان کی چیئرمین نینسی پیلوسی نے کہا کہ اگر ٹرمپ نہیں ہٹائے گئے تو نچلا ایوان ان کے خلاف دوسرا مقدمہ لانے پر غور کرے گا امریکی پارلیمنٹ کی نمائندہ ایوان کی اسپیکر پیلوسی نے امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیرمین مارک میشلے سے بات کی انہوں نے ممبران کو خط لکھ کر بتایا کہ ملاقات کا مقصد پاگل موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کہیں بھی فوجی کاروائی یا نیکلائی حملہ کرنے سے روکنے کے لئے دستیاب متبادل پر تبادلہ خیال کرنا تھا ۔ٹرمپ کی میعاد ختم ہونے میں ایک ہفتہ سے کم وقت بچا ہے لیکن کیپٹل ہل میں تشدد کے بعد ڈیموکریٹ اور رپبلکن پارٹی کے صدر کی صفائی کے بعد بھی انہیں ہٹانے کو لیکر غورکر رہے ہیں ۔پلوسی نے اخباری نمائندوں سے کہا میں نائب صدر پینس اور کیب نیٹ کے دیگر لیڈروں کے فیصلہ کا انتظار کر رہی ہوں ۔اور ٹرمپ کو کچھ کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ٹرمپ کے قریبی سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا صدر کو تشدد کے اپنے رول کو تسلیم کر لینا چاہیے ۔اور ٹرمپ کو سمجھانا چاہیے ان کا قدم پریشانی کھڑا کرنے والا ہے مسئلے کا حل نہیں ایسے ہی ایک اور قریبی سارامینیوس اور کانگریس ممبر ارن بھلو مینئیور نے بھی ٹرمپ پر مقدمہ چلانے کی مانگ کی ۔ٹرمپ حمایتیوں کی تشدد کو امریکہ کی تاریخ میں کالا دن بتاتے ہوئے منتخب صدر جو بائیڈن نے کہا کہ موجودہ صدر کے ذریعے جمہوریت کی خلاف ورزی کے سبب حالات بگڑے ہیں اور جھگڑے کا واقعہ اور کوئی احتجا ج نہیں بلکہ بدامنی تھی ۔اس میں مظاہرین نہیں تھے وہ بنائی گئی بھیڑ کے تھے ۔وہ دیش کے امریکی کام میں دخل اندازی مانا جاتا ہے ۔ہم نے یہ سب کبھی نہیں دیکھا لیکن یہ سچ نہیں ہے ۔ (انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟