اب ایک اور نربھیا جیسا کانڈ!

اتر پردیش کے بدایوں میں 50سالہ آنگن واڑی مددگار خاتون کی گینگ ریپ کے بعد قتل کے واقعہ کی بربریت نے ایک بار پھر نربھیا کانڈ کی یاد تازہ کردی ہے ۔ یہ واردات حیران کرنے والی تو ہے ہی ہے لیکن پولس کا رویہ زیادہ ٹال مٹولی اور پریشان کرنے والا ہے دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ بد قسمت آنگن واڈی معاون استانی (مددگار)جس کی آمدنی سے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ مندر میں پوجا کرنے گئی تھی جہاں مہنت او ر اس کے چیلوں نے عورت کے ساتھ ظلم زیادتی کرتے ہوئے بربریت کی ساری حدیں پار کردیں بتایا جاتا ہے کہ 7سال پہلے اس مندر میں آیا مہنت تنتر منتر کرتا تھا اور وہ عورت ذہنی طور سے بیمار شوہر کی صحت یابی کے لئے اس کے پاس آتی جاتی تھی ۔اتوار کی شام وہ عورت جب گاو¿ں کے مندر میں پوجا کرنے گئی جب کافی دیر تک گھر نہیں لوٹی تو گھر کے لوگ پریشان ہوگئے بعد میں رات 11:30مندر کا پجاری اور دیگر دو لوگوں کے ساتھ بری طرح زخمی حالت میں اس عورت کو گھر کے پاس ڈال کر بھاگ گئے اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا جس کی وجہ سے آخر اس کی موت ہوگئی صرف اتنے پر ہی نہیں معاملہ ختم ہوتا بلکہ پولس کو فوراً حرکت میں آکر معاملہ کی تفتیش کرنی چاہئے تھی۔ لیکن اس نے توجہ نہیں دی اس کی اس لاپرواہی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رات میں ہی رشتہ داروں کی شکایت کے بعد بھی پولس اگلے دن پہونچی اور رپورٹ تک نہیں درج کی گئی ۔ حالانکہ پوسٹ مارتم رپورٹ میںبھی عورت سے اجتماعی آبرو ریزی اور گھناونے طریقے اس کے قتل کے الزامات کی تصدیق ہوئی ہے رپورٹ کے مطابق اس کے پوشیدہ اعضاءپر بری طرح سے زخمی تھے اور لوہے کی چھڑسے گہری چوٹ پہونچائی گئی تھی اور اس کا ایک پیر توڑ دیا گیا تھا مانا پولس کی یہی بے توجہی و لاپرواہی مجرمانہ سے کم نہیں ہے بتایا جاتا ہے خبر پھیلنے پر اس نے طاقت کے ساتھ انتم سنسکار کردیا ۔پولس کا یہی رویہ ہاتھرس کے واقعہ میں بھی دیکھا گیا تھا حالانکہ لاپرواہی برتنے کے الزام میں تھانے کے انچارج کو معطل کردیا گیا اور وزیر اعلیٰ نے معاملے کی ایس آئی ٹی جانچ کے احکامات دیئے ہیں ۔ لیکن ویکاش دوبے انکاو¿نٹر ،غازی آباد کے پترکار وکرم جوشی کے قتل بلیا میں راشن کی دوکان کے لائسنس کے معاملے میں قتل میں ارو بدایوں جیسے کئی معاملے سامنے آئے ہیں ۔ جس سے مقامی پولس کے لا پرواہی کے رول کی نشان دہی کرتے ہیں پولس اور انتظامیہ کی لاپروہی کی وجہ سے جرائم پیشہ کے بڑھتے حوصلے ایسے ریاست کی تصویر پیش کر رہے ہیں جہاں ریاست کو جرائم سے پاک کرنے کا دعویٰ بڑھ چڑھ کر کیا جاتا ہے ۔ عورتوں کی حفاظت اور عزت کی دوہائی دیکر بہت سے قوانین نافذ کئے جار ہے ہیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ دن رات اتر پردیش میں عورتوں کی زندگی غیر محفوظ اور پریشان کن ہوتی جارہی ہے سماجی سطح پر حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ مندر جیسی پوتر عبادت گاہیں کو عورت نے سب سے محفوظ جگہ مانا ہوگا جہاں بھی اس کے خلاف ایسا گھناونا جرم ہوا اس سے جینے کا حق چھین لیا گیا بدایوں کی دردناک واردات یہ بھی بتاتی ہے نربھیا جیسی وردات کے بعد بھی سماج میں کچھ نہیں بدلا اور پھانسی جیسی سخت سزا جرائم پیشہ میں جنسی جرائم کے تئیں خوف پید اکرنے میں ناکام رہی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟