کےا بھاجپا ےوپی مےں 2014کو دوہراپائےگی ؟

سال 2019کے لوک سبھا چناو ¿ مےں اب بہت تھوڑے ہی دن بچے ہےں او راس کے پےش نظر اب اتحاد بنانے کی کوششےں تےز ہوتی جارہی ہےں ۔لکھنو ¿ مےں سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمےان اتحا د کے اعلان سے آنے والے لوک سبھا چناو ¿ کی لڑا ئی کا غےر رسمی آغاز ہوگےا ہے ۔بھاجپا کا رتھ روکنے کےلئے ےوپی کی دوکٹر مخالف سےاسی پارٹےا ںسپا اور بسپا ساتھ آگئےں ہےں ۔دونوں ہی پارٹےوں کا رےاست مےں اپنی اپنی ٹھوس مےنڈےٹ ہے ۔ڈھائی سے کرواہٹ بھرے دور کو پےچھے چھوڑ تے ہوئی سپا اور بسپا مےں جو اےک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کا فےصلہ لےا ہے وہ صر ف مودی کو روکنے کے لئے ہی کےا گےا ہے ۔ماےاوتی نے پرےس کانفرنس مےں کہا تھا ےہ اتحاد مودی اور شاہ کی نےند اڑا نے والا ہے ےہ ان کی زبان ہے ۔بہرحال اتنا تو طے ہے کہ بھاجپا کےلئے چنوتےاں کافی بڑھ گئی ہے ۔اگر 2014کے لوک سبھا و2017کے اسمبلی انتخابات مےں پڑے ووٹوں کے مطابق غور کرےں تو دونوں پارٹےوں کا اجتمائی او ربھاجپا کا ووٹ تقرےبًا برابر ہے اگر ےہ پارٹےاں علےحد ہ علےحد ہ لڑتی تو توسکتا تھا بھاجپا کے لئے 2014دہرانا آسان ہوجاتا اپ چنوتےا ںبڑھ گئی ہےں ماےاوتی نے کہا سپا او ربسپا 38۔38aسےٹوں پر چناو ¿ لڑےں گی جب کہ کانگرےس کے لئے امےٹھی اور رائے برےلی کے لئے چھوڑی گئی ہےں ۔ماےاوتی اکھلےش نے فی الحال کانگرےس کے ساتھ کسی گٹھ بندھن سے انکا کےا ہے ۔ادھر کانگرےس نے اعلان کےا ہے کہ وہ رےاست کی سبھی 80لوک سبھا سےٹوں پر اپنے دم پر چنا و ¿ لڑے گی حالانکہ اس نے اتحاد کے دروازہ ابھی بھی کھلے رکھے ہےں ۔او رکہا اگر کوئی سےکولرپارٹی کانگرےس کے ساتھ چلنے کو تےار ہے تو اسے ضرور مدعوکےا جائے گا ۔پارٹی کو لگنے لگا ہے کہ سپا اور بسپا کے ساتھ اتحاد نہ ہونے کے سبب کچھ چھوٹی پارٹےوں کے ساتھ لاکر سےکولر ووٹوں کے بٹوارے مےں کمی لائی جاسکتی ہے ۔اس لئے ےہ کہا جاسکتا ہے کہ سپا بسپا کا ساتھ جھوٹنے سے کانگرےس نے دےگر کئی پارٹےوں کی طرف ہاتھ بڑھادےا ہے ۔کانگرےس کے ےوپی کے انچار ج غلام نبی آزاد نے اعلان کےا کہ ان کی پارٹی رےاست کی سبھی سےٹوں پر چناو ¿ لڑے گی او ربھاجپا کو ہرائے گی ۔کانگرےس صدر راہل گاندھی نے دبئی مےں کہا کہ کانگرےس کے پاس ےوپی کے لوگوں کو دےنے کے لئے بہت کچھ ہے راہل گاندھی جارحانہ انداز اور دبئی مےں اسٹڈےم مےں موجود لوگوں سے خطا ب مےں دہراےا کہ ہم ےوپی مےں اپنی طوری طاقت کے ساتھ لڑے گے او رلوگوں کو سرپرائز دےں گے جب اخبار نوےسوں نے ان سے پوچھا کہ کانگرےس کو سپا ،بسپا گٹھ بندھ سے الگ رکھا گےا ہے تو انہوں نے کہا الگ الگ رےاستوں مےں الگ سےکولر پارٹی اتحاد کر فرقہ پرست طاقتوں کو چنوتی کے لئے کمر کس چکے ہےں اور ہمارا کئی رےاستوں مےں اتحاد مےں ہوچکا ہے اور کچھ مےں اس کے لئے کارروائی جاری ہے اور اسی کا سپا ،بسپا اتحاد بھی اےک حصہ ہے ۔ماےاوتی جی او راکھلےش جی اتحاد الگ لڑ کر بھی بھاجپا کو ہرانے مےں مددگار ثابت ہونگے ہم نظرےات کی لڑائی لڑرہے ہےں مےں ےقےن دلاتاہوں 2019لوک سبھا چناو ¿ کے چوکانے والے نتےجے ہونگے بےشک !سپا ،بسپا مےں اتحاد تو ہوگےا لےکن دےکھنا ےہ بھی ہوگا کہ دونوں پارٹےاں سےٹوں کے بٹوارے مےں اپنے اپنے نتےاو ¿ں کا بھی دھےان رکھنا ہوگا کےونکہ گٹھ بندھن مےں جنتی زےادہ پارٹےاں ہوتی ہےں اتنی ہی کم سےٹےں ہوجاتی ہےں ۔کئی بار تو نےتاو ¿ں کا ملن ہوتا ہے لےکن ورکروں کا ملن نہےں ہوتا اور کبھی کبھی اےک دوسرے کے ووٹ ٹرانسفر بھی نہےں ہوتے ۔اپنا دل کے ساتھ پانے والی 73سےٹےں مرکز مےں بھاجپا قےادت والی حکومت کی اہم بنےاد ہے بھاجپا صدر امت شاہ 50فےصد کی لڑائی کی بات کررہے ہےں ،لےکن کہنے او رکرنے مےں فرق ہوتا ہے ۔حالانکہ 1993مےں دونوں پارٹےاں ساتھ لڑکر بھی بھاجپا کا صفاےا کرنے مےں کامےا ب نہےں ہوئی تھےں ۔اور سےٹےں تقرےًبا برابر تھی اور بھاجپا کو ووٹ زےادہ ملے تھے جہاں تک 2014لو ک سبھا چناو ¿ کی بات ہے تو بھاجپا نے 43.63فےصد ووٹ لےکر 73سےٹےں حاصل کی تھی ۔سپا کو 22.35فےصد ووٹ شےئر اور صرف پانچ سےٹےں حاصل ہوئی تھی ۔بسپا کوحالانکہ 19.77فےصد ووٹ ملے تھے او روہ اپنا کھاتہ تک نہےں کھول سکی تھی ۔کانگرےس کو 7.53فےصد ووٹ کے ساتھ دوسٹےں ملی تھی ۔اگر سپا 22.35)فےصد) بسپا (19.77فےصد )ےعنی کل ووٹ شےئر کو جوڑا جائے تو ےہ تقرےباً42.12فےصد بن جاتا ہے او راگر کانگرےس کا ووٹ شےئر (7.53فےصد )سے ےہ کہےں زےادہ بن جاتا ہے ۔2014مےں مودی کو لہر تھی وہ اب دھمی پڑگئی ہے ۔کہنے کا مقصد ےہ ہے کہ اترپردےش کا چناو ¿ نتےجہ کسی بھی سمت مےں جاسکتا ہے ۔بھاجپا برادرےو ں کے تجزےوں پر ےقےن کرکے آگے کی حکمت عملی بنانے مےں لگ گئی ہےں ۔بھاجپا گورکھپور او رپھولپور ضمنی چناو ¿ نتائج کو بھولی نہےں ہےں اس نے دےکھ لےا ہے کہ سپا بسپا آمنے سامنے ٹکر دےنے مےں کامےاب ہوجاتی ہےں تو اترپردےش مےں بھا جپا کی راہ آسان ہےں ہوگی ۔سال 2019کے لوک سبھا چناو ¿ مےں اب 80دن سے کم بچے ہےں جب کہ قےاس آرئےاں ےہ بھی جاری ہےں کہ ےوپی سے اس مرتبہ تےن چہرے ہونگے جو دہلی کے تخت پر قبضہ کرنے کی تےاری مےں ہے ۔بھاجپا مےں پی اےم مودی کے نام پر اےک مرتبہ پھر مہر لگ چکی ہے ۔وانسی سے پھر سے امےد ہونگے مودی اس مرتبہ پھر بھا جپا کے اسٹار کمپےنر ہونگے اور پی اےم عہدہ کے مضبوط دعوےدار بھی ۔اس کے برعکس سپا ،بسپا گٹھ بندھن مےں اکھلےش نے ماےاوتی کا نام پی اےم کےلئے پےش کر کے اپوزےشن کی طرف سے مودی کو چنوتی دی ہے ےہ بھی خبر ہے کہ اےک خاص داو ¿ کے ذرےعہ ببوانے بواکو پی اےم کا چہر ہ پروجےکٹ کےا ہے جبکہ ان کے والد ملائم سنگھ ےادو اےوان مےں ماےاوتی کے حرےف رہے ہےں ۔اترپردےش سے جب ہم تےن دعوےداروں کی بات کرتے ہےں تو اس مےں چوتھا نام راہل گاندھی کا بھی شامل ہوگا ۔وہ بھی ےوپی سے ہی چناو ¿ لڑتے ہےں ۔کل ملاکر بھاجپا کے لئے اپنی 2014کی جےت کو دوہرانے کی زبردست چنوتی ہوگی ۔دےکھتے ہےں بھاجپا اس چنوتی کا کےا توڑ نکالتی ہے ۔
(انل نرےندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!