یوگی کی کٹھن پریکشا

اترپردیش میں ایک لڑکی کے ذریعے بھاجپا ممبر اسمبلی پر آبروریزی کا الزام اور اس کے بعد ہوئے واقعات نے یوگی آدتیہ ناتھ سرکار کے قانون و انتظام پر سوال کھڑا کردیا ہے۔ اناؤ کے اس واقعہ نے ہمارے سسٹم کے تئیں جنتا کے بھروسہ کو زبردست جھٹکا دیا ہے۔ اس سے رائج تصور کو اور تقویت ملتی ہے کہ طاقتور شخص یا فرقہ آج بھی پوری مشینری کو انگلی پر نچا رہا ہے اور ایک معمولی شخص کا محفوظ رہنا صرف ایک اتفاق ہی ہے۔ حالانکہ پردیش میں اس طرح کا الزام یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ سابق سپا ۔بسپا سرکاروں کے دوران بھی بہت سے ممبران اسمبلی و کچھ وزراء پر اس طرح کے الزام لگے لیکن بھاجپا کی سرکار کے لئے چونکانے والی واردات ہے۔ اناؤ میں ایک لڑکی کا الزام ہے کہ ممبر اسمبلی کلدیپ سینگر اور اس کے ساتھیوں نے اس کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی ہے۔ لڑکی تھانے میں شکایت کرنے گئی تو رپورٹ درج نہیں کرائی گئی۔ عدالت کے حکم پر کئی دنوں بعد معاملہ درج ہوا تو کیس واپس لینے کا دباؤ شروع ہوگیا۔ متاثرہ کے رشتہ داروں کو اتنا پریشان کیا گیا کہ انہوں نے وزیر اعلی کی رہائش گاہ کے سامنے خود سوزی کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد لڑکی کے بدقسمت والد کو کچھ الزامات میں گرفتار کرلیا گیا اور حراست میں ان کی طبیعت خراب ہوگئی اور موت ہوگئی۔ اذیت کی شکار لڑکی اب بھی مطمئن نہیں ہے کہ اسے انصاف مل پائے گا؟ اس نے ممبر اسمبلی پر بدفعلی کا الزام کے ساتھ ان کے رشتے داروں و والد کے قتل کا الزام لگایا ہے۔ پچھلے ایک برس سے لڑکی کی فریاد تھانہ پولیس سے لیکر حکمراں لیڈروں تک دم توڑتی رہی۔ سچ یہ ہے کہ اگر مشتبہ حالات میں اس کا والد جیل میں نہیں مرتا تو یہ کارروائی نہ ہوپاتی۔ یہ سوال اٹھنے کی واجب وجہ بھی ہے، لڑکی اور اس کے خاندان کو 8 اپریل کو لکھنؤمیں مظاہرہ اور خود سوزی کی کوشش کرکے واپس اناؤ لوٹ چکے تھے۔ لڑکی کے اتنے بڑے الزام کے بعد بھی پولیس نے کچھ نہیں کیا۔ کارروائی کے نام پر محض کاغذی گھوڑے دوڑائے جاتے رہے۔ پیر کی صبح قریب ساڑھے تین بجے لڑکی کے والد کی موت ہوئی تو پولیس اور جیل انتظامیہ سنگین سوالوں کے گھیرے میں آگئے اور تب کوئی ایکشن ہونا پولیس کی مجبوری ہوگیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حال ہی کے راجیہ سبھا چناؤ میں بسپا ممبر اسمبلی کو بھاجپا میں لانے کے لئے کلدیپ سینگر کا ہی رول رہا۔ لڑکی تو پچھلے برس سے ہی ممبر اسمبلی پر الزام لگا رہی تھی لیکن ممبر اسمبلی کے رسوخ کے آگے پولیس بے بس تھی۔ ممبر اسمبلی سینگر سارے الزامات سے انکار کررہا ہے۔ جن حالات میں ملزم کے والد کی پولیس حراست میں موت ہوئی اس سے معاملہ اور زیادہ سنگین ہوگیا۔ پولیس نے ملزم کے والد پر کیوں مقدمہ درج کیا، انہیں کیوں حراست میں لیا؟ اس کی جانچ شروع ہوچکی ہے۔ متعلقہ پولیس والوں کو معطل بھی کردیا گیا ہے۔ وزیر اعلی نے کہا ہے کہ کسی قصوروار کو بخشا نہیں جائے گا۔ ممبر اسمبلی کے بھائی کا ملزمہ کے والد سے مار پیٹ کے الزام میں گرفتار کیا جانا اس بات کا اشارہ ہے کہ جانچ و کارروائی ٹھیک سمت میں چلے گی۔ ملزمہ کے والد مرحوم کے جسم پر مار پیٹ کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے یعنی ان کی بری طرح سے پٹائی کی گئی۔ جو بھی ہو معاملہ کی ٹھیک طرح سے جانچ ہونی چاہئے۔ اس کا ہر پہلو سامنے آنا چاہئے ۔ بھلے ہی یہ یوپی کا معاملہ ہے لیکن پورے دیش کی نظریں اس پر اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ پر لگی ہیں۔ کیونکہ ہمارے سسٹم کے لئے یہ ایک ایسا آزمائشی کیس ہے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اگر یوپی کو جرائم سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو اس معاملہ کی جلد سے جلد جانچ کروائیں اور قصوواروں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچائیں ۔ یہ ان کے لئے بھی ساکھ کا کیس بن گیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!