شام میں کیمیائی حملہ
دہشت گردی کو تو چھوڑیئے اس کے ازالے کی مہم کتنی خوفناک ہوسکتی ہے اس کی ایک جھلک دنیا کو ایک بار پھر تب دیکھنے کو ملی جب کچھ دنوں پہلے شام میں باغیوں کے قبضے والے آخری شہر ڈوما پر کیمیائی حملہ کی خبر آئی۔ نگرانی گروپ کا دعوی ہے کہ اس میں 70 سے زیادہ لوگ مارے گئے اور درجنوں کی تعداد میں لوگوں کو سانس لینے میں دقت آئی۔ اس طرح کا یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ سال2013 میں پہلی بار کمیاوی ہتھیار کا استعمال خان الاصل پر کیا گیا تھا۔ تب سے لیکر اب تک اس پورے علاقہ میں درجنوں ایسے حملے ہوچکے ہیں۔ جان بوجھ کر عام لوگوں کو نشانہ بنانے والے یہ حملے بتاتے ہیں کہ حملہ آور انسانیت سے کتنی دور اور جنگ کے بین الاقوامی قواعد کونہیں مان رہے ہیں۔ حالانکہ شام نے اس حملہ کی مذمت کی ہے اور اپنے اوپر لگے الزامات کو مسترد کیا ہے پھر بھی یہ سمجھنا آسان ہے بشرالاسد نے کئی اسباب سے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ پہلی بار انہوں نے ایسا کیا ہے کیونکہ ان کے پاس اس کی وجہ بھی ہے اور وہ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دوسرا وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوں گے۔ حالانکہ شام حکومت ہی نہیں روس جیسے دوست ملکوں نے بھی ان خبروں کی تردید کی ہے مگر جہاں تہاں پڑی لاشیں اور اسپتالوں میں سانس کی تکلیف سے لڑ رہے بچے حملہ کے خوفناک اثرات کا ثبوت ہیں۔ ایسے حملوں سے جان اور مال کے نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اچھا ہے کہ اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کی ہنگامی میٹنگ اس معاملہ پر ہورہی ہے۔ حالانکہ ایمرجنسی میٹنگ کو لیکر بھی بڑی طاقتوں میں ایک رائے نہیں ہے۔ امریکہ کی درخواست پر ہورہی میٹنگ میں کیمیکل حملہ کے لئے ذمہ داری طے کرنے کی کوشش ہوگی تو روس کی پہل پر ہو رہی میٹنگ میں اس واردات سے بین الاقوامی امن اور سلامتی پیدا ہورہے خطرے پر غور ضروری ہوگا۔ یقینی طور پر روس کو اس کے لئے بڑا ذمہ دار مانا جائے گا۔ شام ایئرفورس اس لئے بھی ڈوما پر بم برسا سکی کیونکہ روس کا مغربی ایشیائی ہوائی زون پر کنٹرول ہے۔ یہ ممکن ہے کہ روس ایسے فیصلوں میں شامل نہیں رہا ہوگا لیکن اسد حکومت کو فوجی و ڈپلومیٹک بچاؤ تو کرنا ہی ہے۔ شام کی فوج نے ہیلی کاپٹروں سے زہریلی و ایٹنٹ سرین مکت بیٹل بم گرایا تھا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں