جسٹس لوڈھا کمیٹی کی سفارشوں کا خیر مقدم ہے

بھارتیہ کرکٹ بورڈ میں اصلاحات کے لئے سپریم کورٹ کے ذریعے بنائی جسٹس لوڈھا کمیٹی نے 159 صفحات کی سفارش عدالت کو پیش کردی ہے۔ اگر ان سفارشوں کو لاگو کردیا گیا تو موجودہ کرکٹ نظام میں خاص کر کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) میں سب کچھ بدل جائے گا۔ کمیٹی کی اہم سفارشوں میں سٹے بازی کو قانونی حیثیت دینا، ایک ریاست میں ایک ایسوسی ایشن، بی سی سی آئی کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لانا، وزیر یا سرکاری ملازمین کو بورڈ کے عہدے دار بننے پر روک لگانا اور کرکٹ کھیل کا چلانا کرکٹروں کے ہاتھ میں دینا، قابل ذکر ہیں۔ بی سی سی آئی کے پاس سنہرہ موقع ہے۔ جسٹس آر ایم لوڈھا کمیٹی کی سفارشوں کو اپنا کر وہ بدنامیوں کی تاریخ سے پیچھا چھڑا سکتی ہے جبکہ ان پر عمل روکنے کی کوشش ہوئی توعوام الناس میں بی سی سی آئی کی ساکھ اور خراب ہوگی۔ ان سفارشوں میں سے کتنی منظور کی جاتی ہیں کہنا مشکل ہے لیکن اس رپورٹ میں بھارتیہ کرکٹ انتظامیہ کو ضرور آئنہ دکھا دیا گیا ہے۔ ممکنہ طور پر کرکٹ میں سیاسی طبقے افسروں اور صنعتی دنیا کی کتنی دخل اندازی ہے اتنی کسی اور کھیل میں نہیں ہے۔ جسٹس لوڈھا نے عہدے داران کے لئے عمر اور کام کی میعاد طے کرنے کی سفارش کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وزرا کو بورڈ کے انتظامیہ سے دور رہنا چاہئے۔ حقیقت میں ممبئی اور بنگال کرکٹ فیڈریشنوں کو چھوڑدیا جائے تو زیادہ تر کرکٹ فیڈریشنوں کی کمان سیاسی لیڈروں ، افسروں اور صنعتکاروں کے ہاتھ میں ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال تو خود بی سی سی آئی ہے جس میں طویل عرصے سے صنعتکار سیاستدانوں کا قبضہ رہا ہے۔ بورڈ کا اقتدار سیاستدانوں کے ہاتھ سے کھینچنا سب سے ٹیڑھا معاملہ ہے۔ اس وقت بورڈ کی کل34 یونٹوں میں سے تقریباً27 میں سیاستداں قابض ہیں لیکن اگر سپریم کورٹ بھی عمل کے لئے کہتا ہے تو دیش کے نیائے سسٹم کو دیکھتے ہوئے اس معاملے کو آسانی سے لٹکایا جاسکتا ہے۔ویسے بھی بورڈ کے عہدے دار اور اس کے کچھ نامی گرامی وکیل پچھلے کچھ دنوں سے یہ ماحول بنانے میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی کمیٹی کی سبھی سفارشوں کو نافذ کرنا ضروری نہیں ہے۔ اصل میں جسٹس لوڈھا کمیٹی کا قیام جسٹس مکل مدگل کمیٹی کے ساتھ ہی کیا گیا تھا، جسے آئی پی ایل میں سٹے بازی کی جانچ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ جیسا ایان چیپل نے حال ہی میں کہا تھا کہ ضروری نہیں سارے کرکٹ اچھے منتظم ہوں مگر کرکٹ کی ساکھ بچانا ضروری ہے اور ایسا تبھی ہوسکتا ہے جب اسے سیاسی طبقے ،افسر شاہی اور صنعتی دنیا کے گٹھ جوڑ سے بچایا جائے۔ ان سفارشوں کا لاگو ہونا بہت کچھ سپریم کورٹ کے موقف پر منحصرکرے گا۔ جہاں تک سٹے بازی کو قانونی حیثیت بنانے کی بات ہے ، تو اس بارے میں طویل عرصے سے ایسا کرنے کے بارے میں کہا جارہا ہے لیکن دیش میں کرکٹ کا مسئلہ سٹے بازی سے زیادہ فکسنگ کا ہے، اس لئے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ لوڈھا کمیٹی نے اس بارے میں کوئی سفارش نہیں کی ہے۔ بہت سے ملکوں میں سٹے بازی کو قانونی حیثیت حاصل ہے، مگر اس سمت میں قدم اٹھانے سے پہلے اس کے تمام امکانی نفع نقصان پر وسیع غور کرنا ضروری ہوگا۔ ویسے لوڈھا کمیٹی نے کھیل انتظامیہ کا بہترین خاکہ سامنے رکھا ہے۔ دیش کی تمام کھیل فیڈریشنوں کو چلانے کو پیشہ آور اور شفاف بنانے کی ضرورت ہے اس میں جسٹس لوڈھا کمیٹی کی سفارشیں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟