پاکستان کا بھارت کو نئے سال کا تحفہ

دہشت گردی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو نیا سال 2016 ء کا آغاز خراب رہا اور سال کے پہلے ہی دن پنجاب کے پٹھان کوٹ ایئربیس پر زبردست آتنکی حملہ ہوا جو پیر کی صبح تک جاری رہا۔ سال کے پہلے دن ہی ایئر بیس کو حملے کے لئے چن کر دہشت گردوں نے 15 سال پرانی تاریخ دوہرائی ہے۔ یکم جنوری2001ء کو پٹھان کوٹ ایئر کوٹ کے قریب چار کلو میٹر دور ڈمتال کی فائرننگ رینج پر مخالف سمت سے حملہ کرکے تین جوانوں کو شہید کردیا تھا۔ اس حملے میں دہشت گرد ڈمتال کی پہاڑیوں سے آئے۔ یہ دہشت گرد ان پہاڑیوں میں کئی دنوں تک چھپے رہے تھے۔ پٹھان کورٹ ایئر بیس میں سنیچر کو ہوا حملہ ایک ایسی ہی واردات تھی جس کا اندازہ سکیورٹی ایجنسیوں کو پہلے سے تھا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ پہلے سے جا نکاری ہوتے ہوئے بھی ہماری سکیورٹی فورس حملے کو پوری طرح ناکام نہیں کرسکی۔ بیشک اس میں کوئی شبہ نہیں کے دہشت گردوں کے تو بہت ناپاک ارادے تھے لیکن ان کے منصوبے پورے نہیں ہوسکے اور وہ زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے۔ لیکن چونکانے والی بات یہ ہے کہ جمعرات کو فوج کی وردی پہنے 4-5 ہتھیار بند دہشت گردوں نے پنجاب کے گورداس پور کے ایس پی ان کے دوساتھیوں کو اغوا کرلیا تھا۔ اغوا کاروں نے کچھ دور جاکر ایس پی اور ان کے ایک ساتھی کو گاڑی سے پھینک دیا۔ نیلی بتی والی پولیس گاڑی لیکر فرار ہوگئے۔ اسی کار سے انہوں نے ساری پولیس رکاوٹیں اور پٹھان کوٹ ایئر بیس تک بغیر روک ٹوک کے پہنچ گئے۔ سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کے ایک سرکاری پولیس گاڑی اڑا لی گئی، پھر بھی انہیں کہیں روکا کیوں نہیں گیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ مار کاٹ کرنے کے ارادے سے آئے ان دہشت گردوں نے ایس پی اور ان کے ساتھی کو زندہ کیوں چھوڑدیا؟ ایسا لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ ملی بھگت کی سازش نظر آتی ہے۔ پٹھانکوٹ بیس پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں نے پاکستان کے بھاگلپور سے ٹریننگ لینے کے بعد بھارت کے نروزجیمل علاقے سے داخل ہوئے تھے۔ یہ سبھی بین الاقوامی سرحد سے بامیال ہوکر کھڑکڑا ڈھبوال سے ہوتے ہوئے گاؤں کے لئے اڈے کے پاس پہنچے تھے۔ 31 دسمبر کی رات ا دہشت گردوں نے یہاں رکاگرسنگھ کو مار ڈالا اور ان کی اینووا کار چھین لی۔ راستے میں پنگچر ہونے کے بعد کار حادثے کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد دہشت گردوں نے کار وہیں چھوڑدی اور وہاں ایس پی ستویندرسنگھ گاڑی مل گئی اور انہوں نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اسی گاڑی میں سوار ہوکر ایئر فورس اسٹیشن کے پیچھے واقع گاؤں اکال گڑھ کے کھیتوں میں گئے۔ کوٹلی پٹھانکوٹ۔ گورداس پور نیشنل ہائیوے پر ہے۔ دہشت گردجس آسانی سے گاؤں سے دو دن تک پٹھانکوٹ ضلع میں گھومتے رہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں پورے علاقے کے سبھی راستوں کی جانکاری تھی۔پاکستان سرحد سے محض 40 کلو میٹر دوری پر واقع پٹھانکوٹ ایئر بیس پہلے سے ہی پاکستان اور پاکستان حمایتی دہشت گردوں کی آنکھ کی کرکری بنا ہوا تھا۔ایئر بیس سے ہی اڑان بھر کر ہمارے جنگی جہازوں نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی تھی اور بنگلہ دیش کا عروج ہوا تھا۔ کارگل جنگ میں بھی پاکستانی فوج کو ملی ہار میں اس بیس کا اہم کردار تھا۔ پٹھانکوٹ ہوائی اڈے پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی اسکیم وہاں زبردست تباہی مچانے کی تھی۔ وہ وہاں کھڑے جنگی جہاز مگ۔21 اور ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنانا چاہتے تھے تاکہ ان میں زبردست دھماکے ہوں اور پورا ایئربیس تباہ ہوجائے۔بتادیں کہ بیس پر تقریباً500 ایئر فورس ملازمین کے پریوار رہتے ہیں۔ اگر آتنکی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوجاتے تو جنگی جہازوں میں بھاری مقدار میں ہوائی جہازی پیٹرول جوالہ مکھی کی طرح بھڑک اٹھتا اور اس کا کتنا سنگین نتیجہ ہوتا یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ فی الحال پلاننگ تو ایئر فورس بیس پر کچھ لوگوں کو یرغمال بنانے کی بھی تھی ۔ پٹھانکوٹ کا یہ حملہ وزیر اعظم نریندر مودی کے پاکستان کے ساتھ رشتے بہتر بانے کی نئی پالیسی کے لئے بھی ایک بڑی چنوتی بن کر ابھرا ہے۔ مودی کے 8 دن پہلے لاہور دورہ کا پاکستان نے کرارا جواب دیا ہے۔ اب مودی کیا حکمت عملی اپناتے ہیں یہ دیکھنا ضروری ہوگیا ہے؟ یہ حملہ کسی بھی نقطہ نظر سے پارلیمنٹ حملے سے کم نہیں تصور کیا جاسکتا۔ یہ پہلی بار ہے کہ پاکستان نواز دہشت گردوں (جیش محمد) نے بھارت کے ایک فوجی اڈے پر حملہ کیا ہے۔ اتنا تو صاف ہے کہ جب بھی بھارت اور پاکستان کے رشتوں میں کسی طرح کی مثبت پیش رفت نظر آتی ہے، پاکستان میں موجود دہشت گرد گروپ، کٹر پسند عناصر و آئی ایس آئی منفی رد عمل دکھاتے ہیں۔ بھارت کو اس حملے کا کرارا جواب دینا ہوگا۔ گلاب کے پھولوں سے گولیوں اور راکٹوں کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ لگتا ہے کہ آتنکی حملے کے اندازے سے زیادہ تھے یہ دو گروپ میں بنٹے ہوئے تھے۔ دونوں ہی گروپ بیس میں داخل ہونے میں کامیاب رہے،تبھی تو ابھی تک دھماکے ہورہے ہیں۔ ہمارے بہادر جوانوں نے ان دہشت گردوں کے ناپاک منصوبوں کو ناکام کرنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ اس حملے میں سکیورٹی فورس کے 7 جوان شہید ہوئے ہیں جن میں این ایس جی کے بھی ایک لیفٹیننٹ کرنل ہیں۔ ہم ان بہادر شہیدوں کو اپنی شردھانجلی دیتے ہیں جنہوں نے اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہوئے اپنی جان کی پرواہ نہیں کی۔ جے ہند۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟