موسم کے دورنگ:میدانوں میں لو کا قہر، پہاڑوں میں برفباری

موسم کے عجیب وغریب رنگ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ میدانوں میں لو کا قہر جاری ہے تو پہاڑوں میں برفباری ہورہی ہے۔ وادی کشمیر اور ہماچل میں پچھلے دنوں میدانی علاقوں میں بارش ہوئی اور پہاڑوں میں برف گرنے سے ٹھنڈ بڑھ گئی ہے۔ کشمیر وادی کو لداخ سے جوڑنے والی قومی شاہراہ چٹانے کھسکنے اور تازہ برفباری کے بعدبند کرنی پڑی۔ ہماچل پردیش کے لاہل اسپیتی کی پہاڑیوں پر برفباری ہورہی ہے اس سے وادی کا درجہ حرارت گر گیا ہے۔ کیلونگ میں 3 سینٹی میٹر برف گری ہے۔ کالپا و کننور میں 18 ملی میٹر بارش درج کی گئی۔تازہ بارش اور برفباری سے پہاڑوں میں ٹھنڈک پھر سے لوٹ آئی ہے۔ شمالی بھارت کے کئی حصوں میں زبردست گرمی پڑ رہی ہے۔ دہلی میں پچھلے تین دنوں سے درجہ حرارت 45 ڈگری کے نیچے نہیں گیا۔ آنے والے دنوں میں بھی گرم ہوائیں چلیں گی۔ گرمی سے اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ دیش بھر میں گرمی کی وجہ سے 18 سے زائد افراد کی موت ہوچکی ہے۔ گرم ہواؤں کے تھپیڑوں سے بڑھی گرمی سے لوگ بے حال ہورہے ہیں۔ گرمی کی سب سے زیادہ مار جھیل رہیں ساؤتھ کی ریاستوں تلنگانہ، آندھرا پردیش میں پچھلے 15 روز میں سب سے زیادہ موتیں درج کی گئیں۔ وہیں لو اور گرم ہواؤں نے اڑیسہ سے لیکر راجستھان، جھارکھنڈ سے لیکر اترپردیش اور پنجاب تک کو اپنی زد میں لے لیا ہے۔مئی کے مہینے میں درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیس تک پہنچنا عام بات ہے لیکن کئی جگہ درجہ حرارت اوسط سے پانچ ڈگری سیلسیس زیادہ درج کیا گیا ہے۔ یہی نہیں راجدھانی کے دہلی پالم علاقے میں تو درجہ حرارت 46 ڈگری اور الہ آباد میں 48 ڈگری کو چھو چکا ہے۔ اس سے پہلے 2010ء میں گرمی کا قہر دیکھاگیا تھا جب امریکہ اور فرانس سے لیکر چین تک اس سے ہلکان ہوگئے تھے۔
اسی برس ہندوستان میں بھی قریب ڈھائی سو افراد کی زبردست گرمی سے موت ہوئی تھی۔ اس کے مقابلے تو اس مرتبہ کہیں زیادہ جان لیوا ثابت ہورہی ہے گرمی۔ گلوبل وارمنگ کے تمام مباحثوں کے درمیان یہ کڑوی سچائی ہے کہ آج بھی اپنے دیش میں گرمی سے بچنے کیخانہ پوری اقدامات کے علاوہ کوئی سسٹم نہیں ہے۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ لو کا شکار ہونے والوں میں عام طور پر غریب اور مزدور طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے لئے روٹی روزی کے انتظام کیلئے گھر سے باہر نکلنا مجبوری ہوتی ہے۔ بھلے دھوپ اور گرمی جان لیوا سطح تک ہو ۔ ایک وقت تھا جب سڑکوں کے کنارے پینے کے پانی کے لئے سرکاری انتظامات کئے جاتے تھے۔ لوگ اپنی سطح پر بھی ٹھنڈے پانی کا پیاؤ لگایا کرتے تھے۔ لیکن آج شہروں کی سڑکوں پر چھاؤں کے لئے پیڑ دیکھنے کو نہیں ملتے۔ بغیر پیسے خرچ کئے پیاس بجھانا مشکل ہے۔ پانی کو خود سرکاروں نے آہستہ آہستہ بازار کے حوالے کردیا ہے جسے اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ گرمی میں لوگوں کا لو کی زد میں آنا تعجب کی بات نہیں رہ گئی ہے۔ اس سال بے تحاشہ گرمی جھیلنے کیلئے لوگ مجبور ہیں کیونکہ 2015ء تاریخ کا سب سے گرم سال ثابت ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟