آڈیٹوریم میں تو بچوں کو مار ڈالا ہے، اگلا فرمان کیا ہے؟

کبھی کبھی الفاظ واقعی بے معنی ہوجاتے ہیں۔ ہم خوف کے سائے میں خاموشی سے اپنی بے بسی کو محسوس کرتے رہتے ہیں اور ہمارے اندر جو جذبات مشتعل ہورہے ہوتے ہیں ان کو کنٹرول کرنے کیلئے ہمیں معقول الفاظ نہیں ملتے۔ اور پھر ہم ہمدردی کے الفاظ کوسود سمجھتے ہوئے خاموش ہوجاتے ہیں۔ ان وحشی طالبان نے پیشار کے معصوم بچوں پر حملہ کرکے ہمیں ایک ایسے ہی موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ پیشاور کے آرمی اسکول میں حملے کا منصوبہ ملا فضل اللہ سمیت طالبان کے سینئر 16 دہشت گردوں نے دسمبر کے شروع میں افغانستان میں ہوئے ایک اجلاس میں بنایاتھا۔ یہ اطلاع پاکستان کے حکام نے جمعرات کودی ہے۔ پاک حکا م کا کہنا ہے ابتدائی جانچ میں پتہ چلا ہے کہ طالبان چیف ملا فضل اللہ اور طالبان کمانڈر سعید حافظ دولت سمیت کئی دیگر لوگوں نے اس منصوبے کو بنایا۔ ان کا کہنا ہے خیبر ضلع میں سرگرم لشکر اسلام کا چیف منگیل باغ میں بھی اس سازش کا ذمہ دار تھا۔ 7 دہشت گردوں کو پیشاور کے پاس خیبر علاقے میں ٹریننگ دی گئی تھی۔ دہشت گردوں کے آقا اس وقت افغانستان میں تھے اور حملے کے دوران دہشت گردوں کے خلاف رابطہ بنائے ہوئے تھے۔ ہم نے آڈیٹوریم میں موجود سبھی بچوں کو مار ڈالا ہے اب ہمارے لئے اگلا فرمان کیا ہے؟ وہیں ٹھہرو ،فوج کے لوگوں کو آنے دو ،خود کو اڑانے سے پہلے انہیں بھی مار ڈالوں۔ سکیورٹی ایجنسیوں کے افسروں کے مطابق پاکستان آرمی اسکول پر حملہ کرنے والے فدائین کی اپنے آقاؤں سے یہ آخری بار بات چیت ہوئی تھی۔ اس حملے سے ہمیں ممبئی کے 26/11 حملے کی یاد تازہ ہوگئی۔ ممبئی میں بھی قصاب اینڈ کمپنی بھی حملے کے دوران آقاؤں سے سیدھے رابطے میں تھی۔ آخری بات کرنے کے بعد بچے دو دہشت گرد فدائین اسکول کے باہر تعینات اسپیشل آپریشن کے جوانوں کی طرف بڑھ گئے تھے۔ آتنکیوں اور ان کے آقاؤں کے درمیان اس طرح کی بات چیت کا انکشاف اس خفیہ ڈوزیر سے ہوا ہے جسے پاک فوج کے چیف جنرل راحل شریف نے بدھ کے روز افغانستان حکومت کے افسروں کو سونپا تھا۔ اسکول میں گھستے ہی فدائین حملہ آور سیدھے بڑے آڈیٹوریم کی طرف بڑھ گئے جہاں سینئر سیکشن کے بچوں کو ابتدائی ہیلتھ کے گر سکھائے جارہے تھے۔
افسروں کے بیچ اس بات پر غور و خوض چل رہا ہے کہ کیا حملہ آوروں کو آڈیٹوریم میں موجود بچوں کے جمع ہونے کی پہلے سے اطلاع تھی؟ کیا انہیں کوئی مخبر پوری جانکاری دے رہا تھا؟ ذرائع کے مطابق پاکستان کے پاس حملہ آوروں کے نام اور ان کی بات چیت کی پوری تفصیل ہے۔ ان میں سے ایک حملہ آور کا نام ابو زر تھا جبکہ اسے ہدایت دینے والے کا نام کمانڈر عمر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ پیشاور کے حملے نے یہ صاف کردیا ہے کہ طالبان کا صفایا پاکستان کی حکومت کیلئے ایک ہمالیہ پہاڑ سے کم بڑا چیلنج نہیں ہے۔ طالبان کے گناہوں کو دیکھتے ہوئے پاک فوج کو طالبان کے خلاف اپنے سارے ہتھیار استعمال کرنے چاہئیں اور حکومت کو تب تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے جب تک اس کی سرزمین سے دشمن کا پورا صفایا نہ ہوجائے لیکن کیا پاکستان ایسا کرے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟