بجلی کمپنیوں کی دادا گیری، سی اے جی نے اٹھائی انگلی!

راجدھانی کے کئی علاقوں میں بغیر کسی اطلاع کے 12-12 گھنٹے تک بجلی کی کٹوتی نے عام آدمی کو رلادیا ہے۔ جمعہ کی رات سے کئی علاقوں میں گھنٹوں بجلی نہ ہونے سے ناراض لوگوں کو کئی جگہ سڑکوں پر اترنا پڑا۔ مشرقی دہلی سے ساؤتھ دہلی تک سبھی جگہ کٹوتی سے لوگ بے حال ہیں۔ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ یہ بجلی کمپنیاں اپنی دھاندلی سے باز نہیں آرہی ہیں۔ دہلی این سی آر ان دنوں پسینے سے تربتر ہے۔دن چڑھتے چڑھتے درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ پسینے سے روتے بلکتے بچے، مرد ، عورتیں، بوڑھوں کو بس اگر امید ہے تو وہ ہے بارش کی، جس کی موسم محکمہ کے مطابق اگلے48 گھنٹوں تک کوئی امید نہیں ہے۔یوں تو بجلی کمپنیوں کی دادا گیری کی بات کوئی نئی نہیں ہے۔ جب تب ان کے خلاف جنتا آواز اٹھاتی رہی ہے اور نفع نقصان کا خیال کرتے ہوئے سیاسی پارٹیاں بھی اس اشو کو لپکتی رہتی ہیں۔ جب کبھی بھی ان کے کان کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ خود کو اس طرح بچا لیتی ہیں کہ یہ کون ہوتے ہیں کان کھینچنے والے۔ دہلی کی تینوں بجلی کمپنیوں کے خلاف جانچ کے احکامات پچھلے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کو کیبنٹ میں دئے گئے اس حکم کے فیصلے کی کاپی ان کے پاس مہر لگانے کے لئے بھیجی تھی۔ کیجریوال کا اس بارے میں صاف کہنا ہے کہ بجلی کمپنیاں حساب کتاب اپنے اپنے طریقے سے کرتی ہیں اور زبردستی خسارہ دکھا کر سرکار اور عام جنتا پر رعب ڈالتی ہیں جبکہ حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے۔ کمپنیوں میں 49 فیصد حصے داری والی دہلی سرکار کے نمائندگی کی بھی نہیں سنی جاتی اور سچ تو یہ بھی ہے کہ سرکاری افسر بھی اس مسئلے پر ہاتھ ڈالنے سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ اب حکومت ہند کے کمپٹرولر آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی طرف سے ان پر کئی تلخ ریمارکس دئے گئے ہیں۔ سی اے جی نے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کو خط لکھ کر صاف صاف الفاظ میں کہا ہے کہ بجلی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ دہلی سرکار کے افسر بھی انہیں تعاون نہیں دے رہے ہیں۔ سی اے جی کے چیف ششی کانت شرما نے دہلی سرکار کے تین بڑے افسران چیف سکریٹری آر کے شریواستو، پرنسپل سکریٹری (فائننس) ایم ایم کٹی و پرنسپل سکریٹری (بجلی) ارون گوئل کے نائر کا ذکر خط میں کیا گیا ہے اور کہنا ہے یہ افسر بجلی کمپنیوں کے بورڈ میں بطور ڈائریکٹر ہیں لیکن یہ تینوں آڈٹ میں ضروری دستاویز مہیا کرانے میں مدد نہیں کررہے ہیں۔ خیال رہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سی اے جی نے 27 جنوری کو بجلی کمپنی کا آڈٹ کا کام شروع کیا تھا لیکن اس کام میں نہ تو بجلی کمپنیاں اور نہ ہی دہلی سرکار کے حکام سے تعاون مل رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تقریباً 6 مہینے کا وقت گزر چکا ہے لیکن سی اے جی کو ضروری دستاویز سمیت کمپنیوں کے حساب کتاب کی تفصیل نہیں مہیا کرائی گئی ہے۔ سی اے جی کے مطابق اب تک جس طرح کی مزید جانکاری دستیاب کرائی گئی ہے اس حساب سے ایک پائیدار آڈٹ ممکن نہیں ہے۔ آدھی ادھوری جانکاری کے سہارے آڈٹ کرنے میں انہوں نے لاچاری ظاہر کردی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟