جب کیجریوال کو نیرج کمار نے سنائی کھری کھری

عام آدمی پارٹی کے کنوینر و چیف اروند کیجریوال کو شاید اب لگتا ہو کہ میں نے دہلی میں انڈیاکنکلیو میں شرکت کر بہت بڑی غلطی کی ہے کیونکہ اس میں موجود لوگوں نے کیجریوال سے ایسے ایسے سوال پوچھے اور رائے زنی کی کہ کیجریوال کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ اس سے پہلے میں بتاؤ کہ اس پروگرام میں کیا ہوا۔ ہوا یہ کہ کیجریوال کے اس پروگرام میں جے پور سے پہنچنے پر بھی تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے بڑی پارٹیوں کے لیڈروں پر کارپوریٹ کے چارٹر جہازوں کااستعمال کرنے کو لے کر جم کر تنقید کرنے والے اروند کیجریوال کو کٹگھرے میں کھڑتے ہوئے پوچھا گیا کہ آپ جے پور سے دہلی کے ایک چارٹرڈ جہاز سے کیوں آئے؟ اس پر جھپنتے ہوئے کیجریوال کو صفائی دینی پڑی کہ میں نے ایک میڈیا گروپ ( انڈیا ٹوڈے) کے چارٹرڈ آنے کو مجبور تھا کیونکہ دوسرے جہاز میں سیٹ نہیں ملی تھی اور انڈیا ٹوڈے نے مجھے پروگرام کے لئے مدعو کیا تھا اور خرچ بھی انہوں ن ے برداشت کیاہے بھاجپا کے لیڈر اسمرتی ایرانی نے کیجریوال پر سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکھنڈی ہے کیونکہ وہ وی آئی پی کلچر کے خلاف ہونے کے خلاف دعوی کرتے ہیں جب کہ وہ خود اس کلچر کو اپناتے ہیں انہوں نے اپنی 49 دن کی سرکار کے وقت یہ ثابت کیاتھا کہ کیجریوال کی سب سے بڑی مشکل گھڑی اس وقت آئی جب دہلی پولیس کے سابق کمشنر نیرج کمار نے انہیں کھری کھوٹی سنا ڈالی۔ اسی اسٹیج پر کیجریوال بھی تھے انہوں نے کیجریوال کے ذریعے اسٹیج سے دیئے گئے بیان کے ان دو نقطوں کو غلط مانا اور جھوٹا ثابت کردیا کیجریوال نے کہا تھا کہ دہلی میں 1600 آبروریزی میں سے ایک بھی کیس کی گتھی نہیں سلجھی۔ا نہوں نے کہا یہاں تقریبا90% فیصد آبروریزی کے معاملے سلجھالئے جاتے ہیں ۔ پھر کیجریوال نے کہا تھا کہ اناہزارے کو تہاڑ میں کال کوٹھری خطرناک آتنک وادیوں کے اورجرائم پیشہ کے درمیان رکھاگیا اس کو نیرج کمار نے جھوٹ قرار دیتے کہا ہے کہ انا کو ڈائریکٹر جنرل جیل کے دفتر میں بنے اسپیشل کمرے میں رکھا گیا تھا ۔ اس کے بعد نیرج کمار نے وہ کیجریوال سے سوال تو نہیں پوچھنا چاہتے لیکن ان کے بارے میں آئے ایک ایس ایم ایس کو پڑھ کر سنانا چاہتے ہیں اس بات پر کیا کہوں اور تالیوں کے درمیان پڑھے گئے ایس ایم ایس کے حصے دیکھئے:’’ قسم سے بہت یادو آؤں گے کیجریوال وہ میٹروں میں جانا وہ رک رک کر نزاکت سے کھانسنا، وہ تیرا نیلی ویگن آر ماروتی کار کا دیوانہ پن، وہ قرینے سے مفلر لپیٹنا، وہ بات بات پر دھرنے پر بیٹھنا، وہ روز روز پریس کانفرنس کرنا، کہ نٹ کھٹ پن، ہر بات پر چڑنا، وہ گرگٹ کا رنگ بدلنا، وہ جنتا کو بجلی پانی کاٹنا اور وہ جھاڑو مارتے مارتے خود کیچرا ہوجانا یاد رہے گاکیجریوال، قسم سے بہت یادآؤں گے کیجریوال، ٹاٹااسٹیل سے بھاگ گئے، سرکاری نوکری سے بھاگ گئے، جنتا دربار سے بھاگ گئے، وزیراعلی کے عہدہ چھوڑ کر بھاگ گئے، اتنا بھاگتے بھاگتے چالیس سے پینتالیس دن ہوتے ہیں کیجریوال نے ثابت کردیا ہے۔۔۔۔ مفلر والی ٹھنڈ میں آئے اور ٹھنڈ میں ہی چلے گئے، ایک گرمی تو دیکھ لیتے بھائی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟