تاکہ سیاست میں داغیوں کو دور رکھا جائے!

داغیوں پر پہنچی سیاسی پارٹیاں بھلے ہی سیاست کررہی ہوں لیکن عزت مآب سپریم کورٹ معاملہ میں نہ صرف سخت ہے بلکہ یہ سختی بڑھاتی جارہی ہے۔ پچھلی جولائی میں سپریم کورٹ نے ایم پی اور ممبران اسمبلی کی ممبر شپ کو عوامی نمائندگی قانون کی دفعہ 8(4) کے تحت ملی سکیورٹی ختم کردی گئی تھی۔ اس نے فیصلہ دیا کہ جن ممبران و ممبران اسمبلی کو سال یا اس سے زیادہ قیددینے والے معاملوں میں سزا ہوگی تو ان کی ممبر شپ ختم ہوجائے گی۔ اپنے تازہ فیصلے میں بڑی عدالت نے جس طرح کا سخت رویہ اپنایا ہے اس سے صاف ہے کہ آنے والے دن مجرمانہ مقدموں کو سامنا کررہے عوامی نمائندوں کے لئے تکلیف دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ بڑی عدالت نے نچلی عدالتوں کو کہا ہے کہ وہ ایم پی اور ممبران اسمبلی پر چل رہے کرپشن اور دیگر سنگین معاملوں کی سماعت ایک سال کے اندر پوری کریں ضروری ہونے پر ان معاملوں کی سماعت روزانہ کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔ سیاست سے وابستہ لوگوں خاص کر عوامی نمائندوں سے متعلق لمبے عرصے تک عدالتوں میں مقدمے چلتے رہتے ہیں اور ان پر فیصلہ نہیں آپاتا۔ اسی نقطہ نظر سے یہ پیغام بھی جاتا ہے کہ مقدمے کے چلتے رہنے سے ان کے خلاف کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ عدالت کو فیصلہ اس عرضی پر دینا تھا کہ جن ایم پی اور ایم ایل اے کے خلاف عدالت میں کوئی جرائم کے مقدمات طے ہوگئے ہیں ان کی ممبر شپ ختم کردی جائے۔ اگر کورٹ اس حد تک نہیں جا سکتا تو اس کے لئے ضروری قانون موجود نہیں ہے۔ اگر الزام طے ہونے کے باوجود عدالتی کارروائی لیٹ لطیفی کے سبب متعلقہ ایم پی و ایم ایل اے بے میعاد اپنے عہدے پر بنے رہتے ہیں ،اس رواج کو توڑنے کے لئے بڑی عدالت کا فیصلہ لائق تحسین ہے اور مناسب بھی ہے۔ اگر نچلی عدالتیں ایک سال میں ایسے داغیوں کا مقدمہ نہیں نمٹا پائیں اس صورت میں اسے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو اس کی تحریری وجہ بتانی ہوگی۔ صاف ہے سپریم کورٹ نے عوام کے نمائندوں کے خلاف لٹکے مقدموں کو فوری نمٹانے کے لئے پٹری پر لا دیا ہے اس کی اہمیت دوطرفہ ہے۔ بہت سی سیاسی پارٹیوں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ انہیں جانبداری یا سیاسی بدلے کے جذبے سے جھوٹے مقدموں میں پھنسایا گیا ہے۔ فرضی مقدمہ کسی کے لئے ایک ہتھیار اور عزت کو ٹھیس پہنچانے والا ہوتا ہے جو لوگ عوامی زندگی میں سرگرم ہیں ان کے لئے یہ اور بھی برا ثابت ہوتا ہوگا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو پرانی شکایت کے باوجود اس سے نکلنے کے کوئی قانونی پہل یعنی آئین سازیہ کی طرف سے نہیں ہوئی۔ اگر ہم عوامی نمائندوں کی بات کریں تو دیش کے وزیر خارجہ سلمان خورشید کا تازہ بیان دیکھیں جو اپنے بیباک اور کبھی کبھی قابل اعتراض بیانوں کے لئے مشہور ہیں انہوں نے سپریم کورٹ اور چناؤ کمیشن دونوں کا مذاق اڑایا ہے۔ خورشید اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے پروگرام میں بول رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا چناؤ کمیشن نے حال ہی میں ہمیں جو ہدایت دی ہیں اس کے مطابق ہمارا چناوی منشور ایسا ہونا چاہئے جس میں سڑکوں کوبنانے کا وعدہ شامل نہیں ہونا چاہئے۔سپریم کورٹ کے کردار پر سلمان خورشید نے کہا عدالت ان اشوز پر رائے دے رہی ہے جن پر جمہوری اصولوں کے مطابق پارلیمنٹ ، سرکار کو فیصلہ کرنا ہے یعنی مطلب صاف ہے عدالتیں ہمیں داغیوں پر کوئی ہدایت نہ دیں۔ہم خود فیصلہ کریں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟