خاتون کی برہنہ تصویر کو فحش نہیں مانا جاسکتا، سپریم کورٹ

مشہور جرمن ٹینس کھلاڑی بورس بیکر کی اپنی منگیتر کے ساتھ برہنہ تصویر کے اشاعت کے خلاف مجرمانہ معاملے کی سماعت میں سپریم کورٹ نے ایک متنازعہ فیصلہ دیا ہے۔ یہ تصویر سب سے پہلے جرمن میگزین ’اسٹرن‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد1993ء میں یہ اسپورٹس ورلڈ اور آنند بازار پرتریکا میں شائع ہوئی تھی۔ کولکاتہ کے ایک وکیل نے اخبار کے مدیر اور پرنٹر پبلشر کے ساتھ ہی اسپورٹس ورلڈ کے مدیر بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان منصور علی خاں پٹوڈی کے خلاف مجسٹریٹ کی عدالت میں شکایت کی تھی۔ اخبار اور دیگر پہلے کولکاتہ ہائی کورٹ گئے وہاں راحت نہ ملنے پر انہوں نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔ بڑی عدالت نے نچلی عدالت میں التوا کارروائی کو منسوخ کرتے ہوئے کہا یہ تصویر فحش نہیں ہے اور اسے اس پس منظر میں دیکھنا چاہئے جس کے لئے یہ دکھائی گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ مجسٹریٹ کو اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے تھا کہ عریاں یا نیم عریاں خاتون کے دوست کو فحش نہیں کہا جاسکتا جب تک اس کا منظر جنسی ذہن کو بڑھانے یا جنسی خواہش کا اظہارکرنے والا نہ ہو۔ عدالت نے اس تبصرے کے ساتھ ٹینس کھلاڑی بورس بیکر کی اپنی منگیتر کے ساتھ عریاں تصویر اخبار میں اشاعت کے خلاف مجرمانہ معاملہ منسوخ کردیا۔ جسٹس ایس ۔کے بالاکرشن اور جسٹس اے۔کے سیکری کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ صرف سیکس سے متعلق مواد کو ہی فحش کہا جاسکتا ہے جس میں سیکس کی ذہنیت پیدا کرنے کا نظریہ پیش کیا ہوتا ہے۔ ججوں نے کہا فحاشیت کا تعین اوسطاً شخص کے نظریئے سے کرنا ہوتا ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ فحاشیت کی تشریح بھی بدلے گی جو ایک وقت میں فحاشیت مانی جائے شاید بعد کی میعاد میں اسے فحاشی نہ مانا جائے۔ عدالت نے کہا کہ نسل پرستی کے خلاف بیکر نے اپنی کالی چمڑی والی منگیتر باربرا فیلس کے ساتھ عریاں تصویر کھنچوائی تھی جس کا مقصد نسل پرستی کی برائی کے خلاف لڑائی لڑنا اور محبت کا پیغام دینا تھا۔ عدالت نے کہا تصویر یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ چمڑی کے رنگ کی زیادہ اہمیت نہیں ہے اور رنگ پر محبت کی جیت ہوتی ہے۔ یہ تصویر محبت کے تصور کا پرچار کرتی ہے جو آگے چل کر گوری چمڑی والے مرد اور کالی چمڑی والی عورت کے بیچ شادی میں بندھتی ہے۔ ججوں نے کہا کہ اس لئے ہمیں تصویر اور آرٹیکل میں چھپے پیغام کی تعریف کرنی چاہئے۔ عزت مآب عدالت نے بالکل صحیح کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ فحاشیت کی تشریح بھی بدل جاتی ہے۔ کچھ برسوں تک فلموں میں رومانس اور پیار کے سین اس طرح کے نہیں ہوتے تھے جیسے آج کی فلموں میں دکھائے جاتے ہیں۔ اب تو کچھ فلموں میں بوسے کے مناظر بھی خوب قبول کئے جارہے ہیں۔ اسی طرح گانوں میں بھی یہ سب چیز شامل ہوگئی ہے۔ہنی سنگھ کے گانوں کے لفظ ہمیں تو فحاشی لگتے ہیں لیکن آج کل کی نوجوان نسل کو بہت پسند ہیں اور عام لگتے ہیں۔ نوجوانوں کی بات کرنے کے انداز میں بھی فرق آگیا ہے۔ گالیاں عام ہوگئی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ فحاشیت کی تشریح بھی بدلی ہے یہ بالکل صحیح بات ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟