آخرکار:مرکزی سرکار نے مانا کوئلہ الاٹمنٹ میں گڑبڑی ہوئی!

کوئلہ بلاک الاٹمنٹ گھوٹالے میں تقریباً چار سال سے الزامات سے انکارکرتی آرہی مرکزی سرکار نے آخر کار یہ مان لیا ہے کہ اس سے کہیں نہ کہیں کول بلاک الاٹمنٹ میں چوک ہوئی ہے۔سرکار نے یہ قبول نامہ کہیں اور نہیں بلکہ ملک کی اعلی عدالت سپریم کورٹ کے سامنے کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل نے یہ بھی قبول کیا کہ الاٹمنٹ کا عمل مکمل طور سے ٹھیک نہیں تھا۔ اس سے زیادہ بہتر طریقے سے کام کیا جاسکتا تھا جبکہ پہلے سرکار کا کہنا تھا کہ الاٹمنٹ تومحض ارادے کا خط ہے اس سے قدرتی ذرائع پر کمپنیوں کو کوئی اختیار نہیں حاصل ہوتا۔ مگر الاٹمنٹ میں محدود کردار نبھانے والی 7 ریاستوں کے جواب کے بعد مرکز کا سر بدل گیا۔ جسٹس آر ۔ایم ۔لودھا کی صدارت والی تین ممبری بنچ کے سامنے مرکز کی جانب سے پیش ہوئے اٹارنی جنرل غلام ای واہنوتی نے کوئلہ کھدانوں کے الاٹمنٹ میں سرکار کی غلطی مانتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ کچھ غلط ہوا ہے۔واہنوتی نے یہ ردعمل اس وقت ظاہر کیا جب جسٹس موصوف نے کہا کہ یہ قواعد کہیں زیادہ بہتر طریقے سے کی جاسکتی تھیں۔اس معاملے میں مرکزی سرکار سچ بولنے اور اپنی غلطی قبول کرنے سے بچ نہیں سکتی ہے۔ صرف سچ قبول کرنا ہی کافی نہیں ہے۔سچائی قبول کرنے سے مسئلے کا حل نہیں ہوتا معاملہ ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ کے گھپلے کا ہے، نقصان کا ہے۔ ضروری منظوری کے بنا ہی کوئلہ کھدانوں میں مختلف کمپنیوں کے ذریعے کی گئی 2 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ڈوب سکتی ہے۔ بنچ نے کہا کہ کوئلہ کھدانوں کے لئے سبھی منظوری حاصل کئے بنا فنڈ نویش کرنے والی کمپنیوں نے ایسا کرنے کا فیصلہ اپنے جوکھم پر لیا ہے۔واہنوتی نے دلیل دی کہ کوئلہ کھدانوں میں قریب 2 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے اور منظوریوں کے ابھاؤ میں ان کے لائسنس رد کرنا مشکل ہوگا۔ اس پر جسٹس نے کہا انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا چاہے انہوں نے کتنی ہی سرمایہ کاری کیوں نہ کی ہو۔ مبینہ گھوٹالے سے سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس سنوائی کے بعد سی بی آئی نے وہ سارے مقدمے درج کئے اور مختلف جگہوں پر چھاپے مارے۔ یہ مقدمے 1993ء سے 2005ء کے درمیان کوئلہ بلاک الاٹمنٹ کے سلسلے میں ہیں۔یہاں اہم سوال یہ ہے کہ الاٹمنٹ میں غلطی کے لئے ذمہ دار لوگوں کی جوابدہی طے ہونی چاہئے کیونکہ الاٹمنٹ عمل میں کچھ زیادہ ہی منمانے طریقے سے کام کیا گیا تھا اور اسی کے چلتے اس عمل نے ایک گھوٹالے کی شکل اختیار کرلی۔ کسی نیتی پر صحیح ڈھنگ سے عمل نہ ہوپانا سمجھ میں آتا ہے لیکن آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان نا اہل لوگوں کو کوئلہ کھدانوں کی الاٹمنٹ کردی گئی؟ یہ معاملہ کوئی معمولی نہیں لاکھوں کروڑوں کا گھوٹالہ ہے جس میں پی ایم او، منتری، صنعت کار، نوکرشاہ اور سیاستداں سیدھے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ اگر ایسا گھوٹالہ دوسرے دیش میں ہوتا اور سرکار قبول کرلیتی کے اس میں غلطی ہوئی ہے تو اس سرکار کو استعفیٰ دینا پڑتا۔ لیکن کانگریسی اخلاقیات پر یقین نہیں کرتے اور وہ معاملے کو دبانے میں لگے رہتے ہیں۔ دھنیہ ہے ہمارا سپریم کورٹ جس نے معاملے کی جڑ تک جانے کا فیصلہ کیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟