دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کو ملے عمر قید!

کھانے پینے کے سامان میں جتنی ملاوٹ ہمارے دیش میں ہوتی ہے شاید ہی کسی دوسرے دیش میں ہوتی ہو۔اس کی اہم وجہ ہے مرکزی سرکار اور ریاستی سرکاروں کا عوام کے تئیں اسنویدناہونا۔نہ انہیں مردوں کی صحت کی فکر ہے نہ خواتین کی اور نہ ہی بچوں کی۔ ان کی لاپرواہی کا ہی نتیجہ ہے کہ عزت مآب سپریم کورٹ کو دودھ میں ملاوٹ جیسے مدعے پر سختی سے بولنا پڑا ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ نے کہا کہ دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف عمر قید کی سزا کی شرط ہونی چاہئے۔ عدالت نے کہا کہ فی الحال اس جرم سے نپٹنے کے لئے موجودہ قانون (دفعہ272) سخت نہیں ہے نہ ہی فوڈ سکیورٹی ایکٹ کافی ہے۔ سزا کی شرط بھی صرف 6ماہ کی ہے۔ملک میں ریاستی سرکاروں کو اترپردیش ، اڑیسہ اور پشچمی بنگال کی طرز پر قانون میں ترمیم کر سخت سزا، عمر قید کی شرط رکھنی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے ریاستوں کے ڈھلمل رویئے پر کڑی ناراضگی جتاتے ہوئے کہا کہ سنتھیٹک دودھ میں ملائے جانے والی اجزاء صحت کے لئے نقصاندہ ہیں۔ اس کے باوجود سرکاریں لاپرواہ ہیں۔ ریاستوں کے جواب پر ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے عزت مآب عدالت نے یوپی ،اتراکھنڈ،ہریانہ، راجستھان، دہلی، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور پنجاب کو مفصل حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ریاستوں کو اپنے جواب میں ملاوٹ کا جرم کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی قانونی کارروائی کا بیورا پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ جسٹس اے۔ ایس۔رادھا کرشنن و جسٹس اے۔ کے۔سیکری کی بنچ کے سامنے عرضی گذار سوامی اچوتانند تیرتھ کی جانب سے پیش ہوئے وکیل انوراگ تومر نے کہا کہ سخت قانون نہ ہونے کی وجہ سے ملاوٹ خوروں کو کوئی ڈر نہیں ہے۔ بنچ نے یوپی سرکار کی طرف سے پیش ہوئے محکمہ خوراک کے چیف سکریٹری و دیگر ریاستوں کی طرف سے پیش ہوئے فوڈ کمشنروں سے اس بارے میں پوچھا۔ دہلی کے فوڈ کمشنر نے بنچ سے کہا کہ ہمارے علاقے میں سنتھیٹک دودھ کا کوئی سیمپل نہیں ملا ہے۔تب درخواست گزار کے وکیل نے انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) اور (ایف ایس اے آئی)کئی سائنسی جانچ کا حوالہ دیا کہ ایک رپورٹ میں 147 دودھ کے نمونوں میں ڈیٹرجنٹ پایا گیا ہے۔ اس کے باوجود اترپردیش کو چھوڑ کر کسی سرکار نے یہ نہیں قبول کیا کہ ڈیٹرجنٹ جیسے نقصاندہ اجزاء کے ذریعے ملاوٹی دودھ تیار کیا جاتا ہے۔ ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف سختی برتنے کا دعوی کرنے والی ریاستی سرکاروں کے جواب کی سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر ہوا نکال دی کہ سرکاری مشینری اس معاملے میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ دراصل ریاستوں کی جانب سے جرمانہ وصولے جانے کی کارروائی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا جسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ یہ جواب تسلی بخش نہیں ہے کہ اتنا یا اتنا جرمانہ وصول کیا تھا۔ریاستی سرکاروں کے جواب ظاہر کرتے ہیں کہ ان کارویہ کتنا لچر ہے۔ اعدادو شمار صحیح کہانی بتاتے ہیں۔ان ریاستوں سے 1791 نمونے لئے گئے ان میں1226 نمونے پازیٹو نہیں پائے گئے ہیں۔ ان میں سے147 نمونوں میں ڈیٹرجنٹ پایا گیا۔ یہ اعدادو شمار ایف ایس ایس آئی نے جنوری2011ء میں لئے تھے جن کی بنیادپر یہ اعداد نکالے گئے ہیں۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟