آسا رام کے کالے کارناموں کا پٹارہ کھلنے لگا!

سنتوں کی کسی بھی طرح کی بے عزتی قابل برداشت نہیں ہے لیکن بھگوا کپڑے پہننے اور اپنے چیلوں کے گنگان سے کوئی سنت نہیں بن جاتا۔ سنتوں جیسا برتاؤ بھی ہونا چاہئے۔ ان کی پاکیزگی ہونی چاہئے اور عام انسان کی طرح کمزوریاں بھی نہیں ہونی چاہئیں۔ آسا رام باپو کے حمایتی انہیں سنت مانتے ہیں اور سنتوں کی طرح پوجتے ہیں لیکن جو الزام آسا رام پر لگ رہے ہیں ان سے تو یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ سنت کے بھیس میں وہ شیطان ہے۔ آسا رام باپو کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا جاچکا ہے مگر بہت کچھ ابھی ان سنا ہے۔ روزنامہ ہندی ہندوستان میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ نامہ نگار مانسی مکشا نے ایک متاثرہ خاندان سے بات چیت کی۔چشم دید کا بیان کچھ اس طرح ہے۔’’دہلی کے ایک ست سنگ کے دوران میں نے آسا رام کو ایک عورت کو لات مارتے دیکھا تھا۔ اس وقت میری آنکھوں میں اندھی عقیدت کا پردہ پڑ گیا۔ مجھے لگا بھگوان ہیں نہ جانے چھونے پر میرا کیا ہوگا۔ اسی طرح احمد آباد آشرم میں میرے سامنے ایک خوبصورت عورت کو اندر بلا لیا اور میں باہر رہی۔ تب بھی میں نے سمجھا کہ وہ قسمت والی ہے جسے بھگوان نے بلایا ہے۔ اب جب اپنے پر بیتی ہے تو سچ پتہ چلا۔ شاہجہاں پور میں رہ رہی متاثرہ لڑکی کی ماں نے آسا رام کے بارے میں کئی چونکانے والی باتیں بیان کی ہیں۔ ایک بیحد معمولی اور گھریلو دکھائی دینے والی35 سالہ اس گرہستن کی زندگی میں ایسا لگا کے جیسے گرہن لگ گیا ہو۔ آسا رام کی شردھالو بن کر بیتے 11 سالوں سے اس عورت نے نہ تو چائے پی اور نہ ہی پیاز ۔لہسن کھایا مگر اچانک کی سب کچھ بدل گیا۔ گھر میں لگی آسا رام کی تصویریں پھینک دیں۔ متاثرہ کی ماں کا الزام ہے کہ شلپی جیسی عورتیں آسا رام کے پاس سپردگی کے لئے لڑکیاں تیار کیا کرتی تھیں۔ ان لڑکیوں سے کہا جاتا تھا کے اگر باپو ایک بار ان سے ملیں گے تو وہ بہت بڑا پد پا سکتے ہیں۔ آشرم کی نگراں یا پھرمقرر بنانے کا لالچ دے کر آسا رام تک پہنچا دیا جاتا تھا۔ بعد میں متاثرہ لڑکیاں ڈر سے منہ نہیں کھول پاتی تھیں۔ 
نابالغ لڑکی کے ساتھ آبروریزی کے معاملے میں75 سالہ آسا رام کو اگست میں گرفتار کیا گیا اور تب سے وہ جیل میں ہے۔ اس نے بیماری کے بہانے سے ضمانت مانگی لیکن عدالتوں نے اس کو مسترد کردیا۔ تازہ خبر کے مطابق سورت کے پولیس کمشنر راکیش آستھانا نے ایتوار کو بتایا کے پولیس نے جنسی استحصال اور ناجائز طریقے سے یرغمال بنانے اور دیگر الزامات کو لیکر ایک شکایت آسا رام اور دوسری ان کے بیٹے نارائن سائیں کے خلاف درج کی ہے۔ بتایا کہ متاثرہ دو بہنیں ہیں اورنارائن سائیں کے خلاف کیس درج کروانے کے لئے سورت آئی ہیں جبکہ اس کے والد کی آسارام کے خلاف درج شکایت احمد آباد منتقل کی گئی ہے۔واقعہ وہاں کا ہے بڑی بہن نے آسا رام کے خلاف جنسی استحصال کا الزام لگایا جبکہ چھوٹی بہن نے آسا رام کے بیٹے کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ یہ واقعہ2001ء سے لیکر 2006ء کے درمیان کا ہے۔ ریپ کے معاملے میں پہلی بار آسا رام کی بیوی اور بیٹی بھارتی کے خلاف بھی معاملہ درج کرایا گیا ہے۔ دونوں پر سازش میں شامل ہونے کا الزام ہے۔ آسارام کے ایک سیوادار نے ان پر زندگی برباد کرنے کا الزام لگایا۔ شاہجہاں پور کے باشندے کا الزام ہے کہ آسا رام نے جڑی بوٹی دے کر اسے نامرد بنادیا۔ آسا رام کے کالے کارناموں کا پٹارہ اب آہستہ آہستہ کھل رہا ہے اور آنے والے دنوں میں پتہ نہیں کتنے اور گھناؤنے کانڈوں سے پردہ اٹھے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟