مودی کا بے تکا بیان:دیوالیہ سے پہلے شوچالیہ؟

بھاجپا کے پی ایم امیداور گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے ایک بار پھر متنازعہ بیان دیکر مصیبت مول لے لی ہے۔ عام طورپرنپا تلا متوازن بیان دینے والے نریندر مودی نے راجدھانی میں منعقدہ پروگرام میں کہا کے مجھے ایک ہندو وادی لیڈر کے طور پر مانا جاتا ہے۔ میری ساکھ مجھے ایسا کہنے کی اجازت نہیں دیتی لیکن پھر بھی میں یہ کہنے کی ہمت کررہا ہوں۔ پہلے ’’شوچالیہ پھر دیوالیہ‘‘ انہوں نے آگے جوڑا کے 21 ویں صدی میں دیش کے لئے یہ شرم کی بات ہے کہ لاکھوں دیہاتی عورتیں آج بھی کھلے میں رفع حاجت کے لئے مجبور ہیں۔ مودی کے اس بیان پر کانگریس کو تو ایک موقعہ ملا ہی ان پر حملہ کرنے کا ساتھ ساتھ آر ایس ایس بھی الجھن میں آگئی ہے۔ وی ایچ پی نیتا پروین توگڑیا نے کہا مودی کا بیان سن کر ہم صدمے میں ہیں۔ ہم بھی صاف صفائی کے حق میں ہیں لیکن جس طرح سے مندر کو بیچ میں گھسیٹا گیا وہ غیر ضروری تھا۔ یہ ہندو سماج کو بے عزت کرنے جیسا ہے۔ توگڑیا نے کہا کہ کانگریس نیتا جے رام رمیش کے اسی طرح کے بیان کی بھاجپا نے مذمت کی تھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھاجپا مودی کے بیان کی مذمت کرے۔ کانگریس کو تو مودی نے ایک زور دار موقعہ فراہم کردیا ہے۔ مرکزی وزیر جے رام رمیش نے نریندر مودی سے پوچھا ہے کہ کیا وہ ایودھیا میں مہا شوچالیہ بنانے سے متعلق بسپا کے سابق چیف کانشی رام کی تجویز سے متفق ہیں۔کبھی جے رام رمیش نے گاؤں میں شوچالیہ کے مندر سے زیادہ ضروری بتایا تھا تب بھاجپا نے اس کی جم کر تنقید کی تھی۔ قریب ایک سال پہلے انہوں نے ایسے ہی رائے زنی کی تھی تب انہیں سنگھ اور بھاجپا کی طرف سے تنقید کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ جے رام رمیش نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے ایسا بیان دیا تھا تب بھاجپا اور سنگھ نے میرا گھر سے نکلنا مشکل کردیاتھا۔ میرے اوپر ہندوؤں کے جذبات کی توہین کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ کچھ تنظیموں نے میرے گھر کے سامنے پیشاب کی بوتلیں رکھ دی تھیں مگر اب جب مودی دیوالیہ سے زیادہ ضروری شوچالیہ کو بتا رہے ہیں تو بھاجپا کے نیتا خاموش کیوں ہیں؟جے رام نے لگے ہاتھوں مودی سے کانشی رام کی اس تجویز پر رائے مانگی ہے جس میں انہوں نے ایودھیا کے متنازعہ جگہ پر مہا شوچالیہ بنوانے کی تجویز رکھی تھی۔ جے رام نے کہا مودی کو یہ بتانا چاہئے کہ کیا وہ کانشی رام کی تجویز سے متفق ہیں۔ انہوں نے کہا مودی کا یہ بیان اس کام میں بھروسے سے زیادہ سیاسی مجبوری میں دیا گیا لگتا ہے۔ یہ بیان مودی کا نیا اوتار جیسا ہے۔ وہ ہر دن نئے انداز میں نمودار ہوتے ہیں۔ میں نے ہندو مذہب کے دش اوتار کی بات سنی ہے لیکن مودی تو شتااوتارہیں۔ وہ ہر دن کوئی نہ کوئی بیان دیکر سرخیوں میں بنا رہنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی جے رام نے کہا بھاجپا کو اب شوچالیہ کی اہمیت کا احساس ہوا ہے اگر یہ احساس 90ویں کی دہائی میں ہوجاتا تو پورا دیش فرقہ وارانہ تشدد سے بچ جاتا۔ کل ملاکر ہمیں بھی اس بات کا دکھ ہے کہ شری نریندر مودی نے بے شک بات تو صحیح کہیں ہو لیکن انہیں شوچالیہ کو مندروں سے نہیں جوڑنا چاہئے تھا۔ شوچالیہ بنانے ضروری ہیں لیکن یہ کہنے کا کیا تک ہے کہ’’ دیوالیہ سے پہلے شوچالیہ‘‘ انہوں نے نہ صرف کانگریس کو ہندوتو پر حملہ کرنے کا موقعہ دے دیا ہے بلکہ ہندوؤں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟