سیمی فائنل کا بگل بج گیا پہلوان دنگل میں اترنے کو تیار!

2014ء کے لوک سبھا چناؤ کے فائنل سے پہلے سیمی فائنل مانے جارہے دہلی سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کا بگل جمعہ کو بج گیا۔ چناؤ کمیشن نے دہلی ، مدھیہ پردیش،راجستھان، چھتیس گڑھ اور میزورم کے لئے چناؤ کی تاریخیں طے کردی ہیں۔ ان ریاستوں کی کل630 اسمبلی سیٹوں پر 11 نومبر سے 4 دسمبر کے درمیان ووٹ ڈالے جائیں گے۔ سبھی ریاستوں کی ووٹوں کی گنتی ایک دن8 دسمبر کو ہوگی۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پہلی بار ریاستوں کے ووٹروں کو سبھی امیدواروں کو مسترد کرنے کا حق ملے گا۔ اس کے لئے ای وی ایم مشین میں الگ سے بٹن ہوگا۔ پہلی بار ووٹروں کو ہر حال میں ووٹ ڈالنے کا موقعہ ملے گا۔ اکثر سبھی لیڈروں کو کرپٹ یا ناکارہ بتاکر کئی لوگ ووٹ نہیں ڈالتے تھے، ایسے لوگوں کیلئے اب الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں نیا بٹن لگایا جارہا ہے۔ جس پر لکھا ہوگا ان میں سے کوئی نہیں۔ 2.25 کروڑ نوجوان پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔ ایک طرح سے18 سے28 سال کے 33.44 فیصد ووٹر ان انتخابات میں فیصلہ کن ہوں گے۔ دہلی میں 20.57 لاکھ نئے نوجوان ووٹر پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔ بھلے ہی انتخابات میں بھاجپا کے پی ایم ان ویٹنگ نریندر مودی اور کانگریس نائب صدر راہل گاندھی سیدھے طور پر آمنے سامنے نہ ہوں مگر سیمی فائنل کی جنگ راہل بنام نریندر مودی کے بینر تلے ہونا طے ہے۔ پانچ ریاستوں میں سے چاردہلی، راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بھاجپا اور کانگریس کے بیچ آمنے سامنے کی ٹکر ہونے والی ہے جبکہ میزورم میں کانگریس کا مقابلہ پردیش کی میزو نیشنل فرنٹ سے ہونا ہے۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ نتائج بھاجپا۔ کانگریس کی آئندہ کی حکمت عملی طے کریں گے۔ ساتھ ہی پارٹی کی اندرونی سیاست پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ کہنے کو یہ ریاستوں کا چناؤ ہے لیکن چناؤ کے نتائج قومی سطح پر بھاجپا کے پی ایم ان ویٹنگ نریندر مودی اور کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کی مقبولیت کا پیمانہ بھی طے کریں گے۔ ان انتخابات کے بعد دونوں بڑی قومی پارٹیوں کے درمیان مرکز میں اگلی حکومت کا فائنل مقابلہ لوک سبھا چناؤ ہوگا۔ بھاجپا نے اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے نریندر مودی کووزیراعظم کاا میدوار بنا کر ان کی مقبولیت کو ریاست میں بھی بھنانے کی حکمت عملی اپنانا بہتر سمجھا۔ مودی پی ایم کے اڈوانی کی مخالفت کو درکنار کرکے امیدوار بن گئے ہیں لیکن پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ نتائج اگر موافق میں نہیں رہے تو اندر اور باہر سے بھی مودی کی مقبولیت اور چناؤ جتاؤ لیڈر شپ پر سوال اٹھنے لگیں گے۔ دوسری طرف کانگریس نے راہل گاندھی کو پی ایم کا امیدوار نہیں اعلان کیا ہے۔ ان کو لیکر کانگریس سیاسی طور سے اسمبلی چناؤ میں خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہے۔ کانگریس کی سیاست رہی ہے کہ چناؤ ہارے تو ذمہ دار ریاست کی لیڈر شپ ہوگی اور جیتیں تو سہرہ راہل اور سونیا کے سر جائے گا۔ اب بات کرتے ہیں دہلی کے اسمبلی چناؤ کی۔ نہ صرف راجدھانی کا نیا نظام طے کرے گا بلکہ شہر کی حکومت سے گہرائی سے جڑے رہے سرکردہ لیڈروں کی قسمت کا فیصلہ بھی کرے گی۔ دہلی چناؤ کا دنگل اس بار پچھلے مقابلوں کی بہ نسبت کچھ الگ ہوگا۔ اب تک مقابلہ کانگریس اور بھاجپا کے درمیان ہوا کرتا تھا لیکن اس بات عام آدمی پارٹی کی موجودگی سے یہ مقابلہ سہ رخی ہونا تقریباً طے مانا جارہا ہے۔ حالانکہ پچھلے چناؤ میں بسپا نے بھی مقابلے کو سہ رخی بنایا تھا۔ اس بار بسپا کے لئے دہلی میں پوزیشن بھلے ہی مختلف ہو لیکن مقابلہ پوری طرح سہ پارٹی ہوگا۔پہلی بار چناؤ لڑنے جارہی عام آدمی پارٹی اس چناؤ میں اہم کردار نبھانے والی ہے۔ کرپشن کے خلاف تحریک کے بعد سیاست میں آئے اروند کیجریوال کی رہنمائی والی جماعت آپ نے سب سے پہلے چناؤ تیار شروع کی ہیں۔ آپ کا پورا زور بھاجپا کے اثر والے شہری علاقوں کے ساتھ کانگریس کے گڑھ مانی گئیں کچی کالونیوں میں بھی مرکوز ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا کے سرووں میں ’آپ‘ کے ذریعے مضبوط چیلنج پیش کرنے کی بات کہے جانے کے بعد دونوں بھاجپا اور کانگریس کے لئے ٹیم کیجریوال کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اروند کیجریوال نے چناؤ کو جنگ کی تشبیہ دی ہے۔ پارٹی نے دعوی کیا ہے کہ اس کو 47 سیٹیں ملیں گی اور اس میں سرکار بنانے تک کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف سرکار کے بدانتظامیہ کو اجاگر کرنے کے لئے بھاجپا گھر گھر جائے گی۔ بھاجپا پردیش پردھان وجے گوئل نے بتایا کہ سبھی ضلع پردھانوں سے کہا گیا ہے وہ اپنے علاقوں میں اشوز کی پہچان کریں اور ان پر خاص توجہ دیں۔ دہلی میں بھاجپا کے پاس کوئی اثر دار چہرہ نہ ہونا ایک بڑی کمزوری مانی جارہی ہے۔ پارٹی کا فیڈ بیک ہے کہ لوگ شیلا سے تو ناراض ہیں لیکن متبادل کے طور پر بھاجپا کوئی نیا چہرہ ان کے سامنے نہیں پیش کرپائی۔ بھاجپا دہلی یونٹ میں آپسی رسہ کشی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ گزشتہ 15 برسوں سے دہلی کی حکومت چلا رہیں شیلا دیکشت کی مقبولیت کو خاص طور پر اس چناؤ کی کسوٹی مانا جارہا ہے۔ پچھلے سال ہی مرکزی کیبنٹ میں ہوئی ردوبدل کے وقت انہیں مرکز میں وزیر بنائے جانے کی بحث زوروں پر تھی لیکن سیاسی واقف کاروں کے مطابق کانگریس ہائی کمان نے دہلی اسمبلی چناؤ کے پیش نظر ان کا کوئی اور متبادل نہ دیکھ انہیں یہاں سے نہ ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ شیلا جی اپنے عہد میں ترقی ،عوامی بہبودی پالیسیوں کی بنیاد پر چناؤ لڑیں گی۔ وہ کہتی ہیں میرا کام بولتا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے تو عوامی بہبود کی اسکیموں کی شیلا جی نے جھڑی لگادی ہے۔ اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر اور سابق وزیر اعلی رہے پروفیسر وجے کمار ملہوترہ کے بارے میں بتایا جارہا ہے وہ اس مرتبہ اسمبلی چناؤ لڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنی سیٹ اپنے بیٹے کو دینے کے حمایتی ہیں اگر بھاجپا چناؤ جیت درج کر لیتی ہے تو انہیں کوئی اہم ذمہ داری دے دی جائے گی یہ اور بات ہے ایسے لیڈروں کی فہرست لمبی ہے جو 65 سے70 سال کی عمرکو پار کرچکے ہیں۔ آنے والے چناؤ میں ہار کا مطلب ہوگا دہلی کی سیاست سے کنارہ کرنا لہٰذالب و لباب یہ ہے کہ اسمبلی کے آنے والے چناؤ کے نتائج کئی بڑے قد کے لیڈروں کے لئے بہت اہم ثابت ہونے والے ہیں۔ کل ملاکر سیمی فائنل کا بگل بج چکا ہے، دنگل شروع ہونے جارہا ہے، پہلوان تیار ہورہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟