پہلے سے ہی مہنگائی کی مار سے پریشان عوام اور پسے گی!

اگر یوپی اے سرکار کو لگتا ہے کہ لاکھوں مزدور، نوکری پیشہ روزانہ کمانے والے لوگوں کی کوئی پریشانی نہیں ہے تو وہ دو وقت کی روزی روٹی کیسے جٹا پارہا ہے اس کا شاید انہیں نہ تو کوئی احساس ہے اور نہ ہی پرواہ۔ پیاز، سبزیوں ،ایندھن، پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ سب کچھ مہنگا ہوتا جارہا ہے۔ پہلے سے ہی مہنگائی سے پریشان حال جنتا کے لئے یہ خبر اور ڈرانے والی ہے کہ افراط زر شرح 6 ماہ میں سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے اور غذائی اجناس کی مہنگائی 18 فیصدی کو پار کرگئی ہے۔پچھلے اگست میں کھانے پینے کی اشیاء تین سال میں سب سے زیادہ18.18 فیصدی بڑھی ہے۔تھوک انڈیکس پر مبنی مہنگائی شرح بڑھ کر 6.10 فیصدی پہنچ گئی ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے اس سال اگست میں پیاز 245فیصدی تقریباً ڈھائی گنا مہنگی ہوئی جبکہ سبزیوں کے دام78فیصدی بڑھ گئے ہیں۔ ڈیزل پر 27 فیصدی ، ایل پی جی پر قریب8 فیصدی مہنگائی بڑھی ہے۔ وزارت کامرس کی جانب سے جاری اعدادو شمار کے مطابق کارخانوں میں بننے والے سامان کی مہنگائی گذشتہ اگست میں صرف1.9 فیصد بڑھی لیکن تھوک مہنگائی پر قریب14 فیصدی اہمیت رکھنے والی کھانے پینے کی چیزوں کی مہنگائی18فیصدی بڑھنے سے پچھلے 6 مہینے میں سب سے زیادہ مہنگائی نے بلندی چھوئی ہے۔ اگر یہ ہی حالت رہی تو عام جنتا کی مصیبتیں زیادہ بڑھنا طے ہے۔ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جنتا کسی بھی طرح کی راحت کی امید بالکل نہیں رکھ سکتی کیونکہ سر اٹھاتی مہنگائی کے چلتے اس کے امکانات مدھم ہوگئے ہیں۔ ریزرو بینک سود شرحوں میں کٹوتی پر غور کرسکتا ہے۔ مہنگائی پر تازہ اضافے کے سبب پیاز 80-100 روپے کلو تک پہنچ گئی ہے جس سے عام آدمی کی خوراک پر لاگت بڑھی ہے اس کے علاوہ سبزیوں اور گوشت ،مچھلی کے داموں میں بھی تیزی آئی ہے۔ مایوسی کی بات یہ ہے کہ تمام یقین دہانیوں کے باوجود مرکزی سرکار و ریاستی سرکاریں ایسا کچھ نہیں کرسکیں جس سے مہنگائی پر قابو ہو پائے۔ سچ تو یہ ہے اس بارے میں سبھی نے اپنے اپنے ہاتھ کھڑے کردئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کے اسی کے ساتھ بڑھی مہنگائی کی پرواہ کرنا بھی چھوڑدیا گیا ہے۔ ایسا احساس اس لئے ہورہا ہے کیونکہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے نہ تو فوری قدم اٹھائے جارہے ہیں اور نہ ہی قلیل المدتی قدم۔ تہواروں کے موسم میں بڑھتی مہنگائی دیوالی کے جوش میں کمی کرے گی۔ کار یا کوئی سامان خریدنے کا پلان بنانے والوں کو بھی دھکا لگ سکتا ہے۔ بڑھتی مہنگائی ،گرتا روپیہ اور دھیمی اقتصادی ترقی شرح نے مرکزی سرکار کی تشویشات کو بڑھادیا ہوگا۔ چناوی برس میں مہنگائی کے بڑھتے حکمراں پارٹی کے ووٹروں پر بھی سیدھا اثر پڑنے والا ہے۔ آج زیادہ تر جنتا کے لئے مہنگائی سب سے بڑا اشو ہے۔ اس سال کے آخر تک کئی ریاستوں کے چناؤ ہونے ہیں ۔ دراصل آٹھ مہینے میں لوک سبھا چناؤ آرہے ہیں۔ خود سرکاری اعدادو شمار بتا رہے ہیں کہ بھارت میں ہر سال ہزاروں کروڑ روپے کے پھل، سبزیاں، اناج کے رکھ رکھاؤ میں کمی اور ڈھلائی کا مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب برباد ہوجاتے ہیں۔ پھل، سبزیوں اور اناج کے اتنے بڑے پیمانے پر بربادی کے جاری رہتے مہنگائی پر کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔پہلے سے ہی ڈرے غریب آدمی کی کمر اور ٹوٹے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟