ایڈیشنل سیشن جج یوگیش کھنہ کا ہی فیصلہ نہیں سارے دیش کی یہی مانگ تھی!

وسنت وہار گینگ ریپ معاملے میں قصورواروں کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کا فیصلہ کئی معنوں میں تاریخی ہے۔ جہاں ساکیت کی اسپیشل فاسٹ ٹریک عدالت نے پہلی بار کسی معاملے میں پھانسی کی سزا سنائی وہیں یہ ایڈیشنل سیشن جج یوگیش کھنہ کے عہد میں ان کے ذریعے سنائی گئی پہلی پھانسی کی سزا ہے۔ ساکیت عدالت کے ذریعے بھی کسی معاملے میں سنائی گئی یہ پھانسی کی ممکنہ پہلی سزا مانی جائے گی۔ فیصلہ وہی آیا جو دیش چاہتا تھا۔ چاروں درندوں پون گپتا، مکیش سنگھ، ونے کمار اور اکشے سنگھ کو سزائے موت جمعہ کو ڈھائی بجے جج یوگیش کھنہ نے جیسے ہی کہا ’Death to all(سب کوسزائے موت) تو کورٹ روم میں تالیاں بج گئیں۔ پورا دیش ان درندوں کے لئے موت مانگ رہا ہے۔ اس لئے اس سزا سے اس کو انصاف مل گیا۔ جس وقت کورٹ میں فیصلہ سنایا جارہا تھا تو عدالت کے باہر جمع سینکڑوں لوگ قصورواروں کو پھانسی کی سزا کی مانگ کررہے تھے۔ جب خبر باہر آئی تو لوگ خوشی میں جھوم اٹھے۔ اس کے بعد قصورواروں کو فوراً بھاری سکیورٹی انتظام کے درمیان عدالت سے باہر لایاگیا۔ ملزم کی عدالت میں پیشی، سزا سنانے اور واپس جیل بھیجنے کی پوری کارروائی میں محض20 منٹ لگے۔ فیصلہ سنانے ساکیٹ کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج یوگیش کھنہ 2.22 منٹ پر عدالت میں داخل ہوئے اور قریب 4منٹ میں یہ تاریخی فیصلہ سنا دیا۔شاید یہ پہلا موقعہ تھا جب یہ فیصلہ آتے ہی عدالت کے باہر جمع لوگ جج کی حمایت میں زندہ باد کے نعرے لگانے لگے اور ان میں خوشی اور جوش اتنا تھا کے مقدمے کی کارروائی ختم ہونے کے بعد باہر نکلے سرکاری وکیل کو بھی لوگوں نے کندھے پر اٹھالیا۔ درندوں کو موت کی سزا سنانے کے بعد جج کھنہ کے برطانوی عہد سے چلی آرہی روایت کے مطابق قلم کی نب توڑ دی۔ کورٹ کے ذرائع کے مطابق لڑکی کے خلاف ہوئے مجرمانہ معاملے کی سماعت کے لئے قائم فاسٹ ٹریک کورٹ میں مقرر کئے گئے یوگیش کھنہ نے اپنے 20 صفحات کے فیصلے پر دستخط کئے تھے۔ قصورواروں نے اپنی غیرانسانی حرکت سے پورے دیش کو سکتے میں ڈال دیا تھا ان کو دی جانے والی سزا ایک مثال بنے گی۔ اس کا سماج کو اچھا پیغام جائے گا۔قصورواروں کے وکیل اے ۔پی ۔سنگھ نے غصے میں زور سے میز پر ہاتھ مارا۔ جج باہر جانے لگے تو وکیل زور سے چیخا،بولا یہ نا انصافی ہے۔ باہر نکل کر بولا جج صاحب آپ نے ’ستیہ مے جیتے‘ کی جگہ ’مرتیو میں جیتے‘ کو اپ لوڈ کیا ہے۔وکیل صاحب اپنے آپے سے باہر ہوگئے اور اول جلول دلیلیں دینے لگے۔ کہا کہ اگر دہلی این سی آر میں آبروریزی کی وارداتیں بند ہوجائیں تو ہم ہائی کورٹ میں اپیل نہیں کریں گے۔ یہ ہی نہیں یہ دوہرانے سے بھی نہیں چوکے کے سرکاری دباؤ میں یہ فیصلہ آیا ہے۔ جب کے جج صاحب نے ان کی ہر دلیل کا جواب دیا۔ بچاؤ فریق نے دلیل دی سبھی قصوروار کم عمر کے ہیں۔ یوگیش کمار 26، اکشے ٹھاکر28، پون گپتا19، ونے شرما 20 سال کے ہیں۔ جج صاحب نے سپریم کورٹ کے ذریعے دئے گئے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کم عمر کے قصورواروں کو پہلے بھی پھانسی دی جاچکی ہے۔ کولکاتہ میں دھننجے چٹرجی اور دہشت گرد اجمل عامر قصاب دونوں ہی ہم عمرتھے۔
دراصل عدالت سبھی حالات پر غور کرتی ہے۔ بچاؤفریق کا کہنا ہے کہ ان میں سے کسی کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ یہ غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے خاندان کو دو وقت کی روزی روٹی کے لئے بھی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے غریب ہونے کی بنیاد پر راحت نہیں دی جاسکتی۔ آخر کس نے انہیں شراب پینے کو کہا تھا۔ شیبو بنام ہریانہ سرکار اور کرشن اپا بنام کرناٹک حکومت معاملے میں عدالت نے ایسی ہی دلیل کو مسترد کیا ہے۔بچاؤ فریق: سپریم کورٹ کے مطابق عمر قید کاقاعدہ ہے جبکہ موت کی سزا ایک ضمنی ہے۔ عدالت:واقعے کو جس طرح پیش کیاگیا گھناؤنی اور بے رحمانہ طریقے سے انجام دیا گیا وہ رونگٹے کھڑے کرنے والا ہے۔ اس سے پورے سماج میں ناراضگی پیدا ہوگئی۔ یہ کسی بھی ظلم کی سب سے گھناؤنی شکل ہے۔ متاثرہ کے جسم پر زخم دئے گئے۔ اس واقعے نے سماج کے تانے بانے کو متاثر کیا۔ بچاؤ فریق: انہیں سازش رچنے کی بنیاد پر قصوروار قرار دیا گیا۔ ایسا نہیں ہے ہر ایک کے رول کی بنیاد پر قصوروار قراردیا جائے؟ عدالت: ہمارے مطابق معاملہ انتہائی حساسیت پر مبنی ہے کیونکہ قصورواروں نے متاثرہ کے جسم پر لوہے کی چھڑ اور ہاتھ ڈالا تھا۔ اس کی آنتیں باہر نکال دی تھیں۔ آنتوں پر زخم کے نشان تھے اور اس سے جس طرح ذہنی اذیت اور حیوانیت کے ساتھ پیش آیا گیا اور اجتماعی آبروریزی کے بعد پچھلے دروازے سے باہر پھینکنے کی کوشش کی لیکن دروازہ جام تھا اس کے بعد اس کے بال پکڑ کر گھسیٹا گیا اگلے دروازے تک لے جاکر باہر پھینک دیاگیا۔ پورے جسم پر اس اذیت کے نشانات تصدیق کرتے ہیں۔ کچھ جرم اس طرح کے ہوتے ہیں جن کے بارے میں سماج کو بتانا ضروری ہوتا ہے اس میں پھانسی کی سزا مل سکتی ہے۔ جج موصوف نے کہا کہ آئے دن عورتوں کے خلاف جس طرح غیر انسانی جرائم بڑھے ہیں عدالت اس کے تئیں اپنی آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی۔ ایسے جرائم کو روکنے کے لئے سخت پیغام دیا جانا ضروری ہے۔ اس لئے ان جیسے مجرموں کے تئیں رعایت برتنے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔ عام لوگوں کے دل میں قانون کے تئیں بھروسہ کم ہوا ہے اس کے لئے یہ سزا ضروری ہے۔ بھگوان سمجھے جانے والے ڈاکٹر بھی ان درندوں کے لئے موت کی دعا کررہے تھے۔ متاثرہ لڑکی کا علاج کرنے والے ایک ڈاکٹر نے کہا کے ہسپتال انتظامیہ اس فیصلے کی پہلے سے ہی دعا مانگ رہا تھا اور آج وہ قبول ہوگئی۔ پہلی بار پورے معاملے پر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر بی ۔ڈی اتھانی میڈیا سے مخاطب ہوئے اور بولے یقینی طور سے طلبا کے اندر جینے کی غضب کی خواہش تھی جس کی وجہ سے ہی قانون میں ترمیم ہوئی اور دیش کی جنتا سڑک سے پارلیمنٹ تک پہنچی۔ معاملے بہت آتے ہیں لیکن کبھی نہیں دیکھا ایسی بربریت کا مظاہرہ اور اپیل کے لئے 30 دن کا وقت ہے۔ سارا دیش چاہتا ہے کہ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور صدر ان درندوں کی اپیل پر جلد سے جلد فیصلہ کرے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ انہیں ایک برس میں پھانسی پر لٹکادیا جائے۔ محترم ایڈیشنل سیشن جج یوگیش کھنہ سارے دیش کی طرف سے مبارکباد کے مستحق بن گئے ہیں اور ان کا اس معاملے میں سزائے موت کا فیصلہ متاثرہ لڑکی کو شردھانجلی اور حیوانوں کے لئے ایک عبرت مانا جائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟