اے بی وی پی نے دیا نریندر مودی کو پہلا تحفہ!

دہلی اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعے نریندر مودی کو اپنا پی ایم امیدوار اعلان کرنے کا کتنا نفع نقصان ہوگا اس کا فیصلہ تو بھلے ہی اگلے برس2014ء میں لوک سبھا چناؤ نتائج کے بعد ہی سامنے آئے گا ۔ فی الحال تو دہلی یونیورسٹی اسٹوڈینٹ یونین میں اکھل بھارتیہ ودھارتی پریشد (اے بی وی پی ) نے صدر سمیت تین عہدوں پر قبضہ کرلیا۔جمعہ کوہی پردھان منتری کے عہدے کے لئے امیدوار نریندر مودی کو پہلا شاندار تحفہ دیا ہے۔ دہلی کی سیاست کی نرسری مانے جانے والے ڈوسو چناؤ میں اے بی وی پی کی اس دھماکے دار جیت نے نوجوانوں کے رجحان کو بھی ظاہر کردیا ہے۔ کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے اے بی وی پی دھیمی پڑتی جارہی تھی۔ 2011ء سے اے بی وی پی سے صدر کا عہدہ چھنا ہوا تھا اور2012ء میں تو اسے صرف جوائنٹ سکریٹری کا عہدہ ہی مل پایا تھا۔ اے بی وی پی کا صاف کہنا ہے اس بار ڈوسو چناؤ میں نریندر مودی فیکٹر نے بڑا کام کیا ہے۔ اس نے اپنے سبھی امیدواروں کے نام اور سیریل میں مودی کی تصویر استعمال کی تھی۔ چناؤ مہم کے دوران پوسٹر میں بھی نریندر مودی کا چہرہ اہمیت کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔اے بی وی پی کے ترجمان ساکیت بہوگنا کہتے ہیں کہ نریندر مودی نوجوانوں کے مقبول لیڈر ہیں اور دیش کے نوجوانوں کو ان سے لگاؤں ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ دہلی یونیورسٹی کے طلبا کی وہ مدد کریں گے۔ کیا مودی فیکٹر اگلے اسمبلی چناؤمیں دہلی کی شیلا سرکار کو ہرانے میں مدد کرے گا؟ مقابلہ کانٹے کا چل رہا ہے۔ اے بی پی نیوز نیلسن سروے کے مطابق تین بار سے اقتدار میں قابض کانگریس کو اس بار ہار کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھاجپا سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں ابھر کر سامنے آئے گی لیکن کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملنے والی۔ بھاجپا کو32، کانگریس کو27،عام آدمی پارٹی کو8 سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ 3 سیٹیں دیگر کو ملیں گی۔ سروے کے مطابق بھاجپا کو34 اور کانگریس کو29 اور آپ کو15 فیصدی ووٹ ملنے والے ہیں۔ سروے کے نتیجے 14سے20 اگست کے درمیان راجدھانی کے 7 ہزار سے زیادہ ووٹروں سے پوچھے گئے سوال کے جواب پر مبنی ہے۔ یہ سروے 70 اسمبلی سیٹوں میں سے35 سیٹوں پر کیا گیا تھا۔ سروے میں جو خاص بات سامنے آئی وہ ہے اروند کیجروال اور ان کی عام آدمی پارٹی کا ابھرنا اور دہلی میں اپنے پاؤں جمانے کا رجحان۔ مجھے مختلف الیکٹرانک چینلوں میں جانے کا موقعہ ملتا ہے بات چیت میں یہ ہی فیڈ بیک ملا ہے کہ عام آدمی پارٹی دہلی کے دیہاتی علاقے میں چھوٹے طبقے میں اپنے پاؤں جما رہی ہے۔ چھوٹا اور مزدور طبقہ اور طلبا میں عام آدمی پارٹی کی مقبولیت ہے اور اس کو ضرور ووٹ ملیں گے کیونکہ عام طور پر پسماندہ اور چھوٹا طبقہ و جھگی جھونپڑی کے ووٹ کانگریس کو جاتے ہیں اس لئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے ووٹوں کا زیادہ نقصان کانگریس کو ہوسکتا ہے۔ بیشک بھاجپا کے بھی کچھ ووٹ کٹیں گے لیکن زیادہ نقصان کانگریس کو ہونے والا ہے۔ بھاجپا کے اگر کچھ ووٹ کٹیں گے تو پارٹی یہ ہی امید کرتی ہے کے نریندر مودی فیکٹر اس کی بھرپائی کردے گا۔ ابھی چناؤ دور ہیں، تصویر بدلتی رہے گی۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟