لوٹ کھسوٹ کی اسکیم بنتی منریگا! کسان وہیں کا وہیں رہ گیا

اپنے دیش میں بہت کچھ بدل گیا لیکن ایک چیز نہیں بدلی وہ ہے سرکاری اسکیموں اور وسائل کے لوٹ کھسوٹ کے طریقے۔ تازہ مثال مہاتما گاندھی قومی روزگار گارنٹی (منریگا) کی ہے۔ بھارت کے کمپٹرولر آڈیٹر جنرل (کیگ) کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جو بتاتی ہے کہ کیسے منریگا کے تحت غریبی دور کرنے کے لئے شروع کی گئی اسکیم کو کھلے عام کرپشن کا اکھاڑا بنا دیا گیا۔ طریقہ وہی فرضی نوکری کارڈ بنوائے گئے، کاغذوں میں کام دکھایا گیا۔ نتیجہ بھی وہی جو پیسہ غریبوں میں بانٹنا چاہئے تھا، غریبوں کا پیٹ بھرنے کے لئے الاٹمنٹ کیا گیا تھا، وہ کرپٹ لوگوں کی تجوریوں میں پہنچ گیا۔ غورطلب ہے کہ منریگا کی اسکیم میں ایک مالی سال میں ایک خاندان کو 100 دن کا روزگار پانے کا حق ہے یعنی کسی خاندان میں بالغ 10 ممبر ہیں ان میں سے جو روزگار کی مانگ کرتے ہیں اپنے ہر ایک شخص کو نہیں بلکہ سب کو جوڑ کر100 دن کا روزگار دینے کی سہولت ہے۔ مرکزی دیہی ترقی وزارت نے 20 نئے کام جوڑ کر منریگا ۔2 کا نام دے دیا۔ یہاں منریگا کے بے روزگاری بھتے نے گاؤں والوں کی نیت خراب کردی۔ اسکیم آتے ہی یہ بات زوروں سے پھیلائی گئی کے منریگا میں جنہیں روزگار نہیں مل پائے گا انہیں بے روزگاری بھتہ ملے گا۔ اس طرح زیادہ روزگار اور زیادہ بے روزگاری بھتہ پانے کے لئے 10 بالغ شخص کو مشترکہ خاندان نہ ہوکر بلکہ الگ الگ پانچ خاندان دکھاتے ہوئے پانچ جاب کارڈ بنوا لئے جبکہ وہ ایک ہی گھر میں رہ رہے ہیں، ایک ہی چولہے پر ان کا کھانا بنتا ہے۔ ادھر زیادہ تر سرپنچوں و پنچایت سکریٹریوں نے یہ چالاکی کی۔ فرضی جاب کارڈ بنوا کر اپنے قبضے میں کرلئے تاکہ ان کے نام پر مسٹرول بھرواکر رقم ہتیائی جاسکے۔ مندرجہ بالا کرپشن کے طریقے پر غور کیجئے کہ اترپردیش کے رائے بریلی کے مہارج گنج بلاک کی گرام پنچایت پھورینا میں 80 فٹ لمبا اور70 فٹ چوڑا پکا تالاب ہے۔ سال 2009-10 ء میں اس ماڈل تالاب کو بنانے کی اسکیم بنی اور 9.10 لاکھ روپے منظور ہوئے ۔ اس میں 5.28 لاکھ روپے، تالاب بنانے میں خرچ ہوگئے۔ اصلیت تو یہ ہے تالاب کے نام پرایک گڈھا ہی کھدا ہوا ہے۔ ایسی درجنوں کہانیاں ہیں۔ محترمہ سونیا گاندھی نے اچھی اسکیم رکھی تھی اور اس کی اڈوانی جی نے بھی اقوام متحدہ میں تعریف کی تھی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سبھی سطح پر ہوئی دھاندلی اور کرپشن کے سبب جو امیدیں بندھی تھیں وہ چوپٹ ہوکر رہ گئیں۔ امید تو یہ تھی کہ ہر ایک کنبے کو ہر سال کم از کم100 دن کا روزگار ملے گا۔ منریگا کی دفعہ۔16(3) کے مطابق گرام پنچایتوں کو سالانہ اسکیم بنانی تھی۔1 لاکھ26 ہزار961 کروڑ روپے کی اسکیم منظور کی گئی۔ ریاستوں کو اس اسکیم پر عمل سے متعلق قاعدے بنانے تھے۔ کرپشن روکنے کے لئے جاب کارڈ پر فائدہ پانے والے کا فوٹو لگوانا ضروری تھا۔ کوئی جاب کارڈ بننے کا مطلب روزگار کی گارنٹی ۔ اس روزگار اسکیم پر عمل پر نگرانی کے لئے دیہی وزارت ترقی قانون سے بندھی ہے اس کے لئے منریگا نے مرکزی روزگار گارنٹی کونسل کا قیام کی بات کہی تھی۔سی اے جی کی رپورٹ کے مطابق یہ کونسل نگرانی کے کام میں ناکام رہی ہے۔ اس کی تشکیل کو 6 سال ہوچکے ہیں لیکن اس کے ممبر اب تک محض 13 فیلڈ دورے ہی کر پائے۔
اس اسکیم کے تحت کروائے جارہے کام کی نگرانی کے لئے نیشنل کوالٹی مانیٹرز سسٹم بنایا جانا تھا لیکن مرکزی سرکار ابھی تک اسے عملی جامہ نہیں پہنا سکی۔ فنڈ کی منظوری اور انہیں جاری کرنے کے معاملے میں خود وزارت نے منمانی سے کام لیا۔ سی اے جی نے اس معاملے میں 1960.45 کرور روپے کی گڑ بڑی پکڑی ہے۔ سونیا گاندھی کی اس پیاری اسکیم کا موازنہ اندرا گاندھی کی غریبی ہٹاؤ یوجنا کے ساتھ کیا گیا اور اسے بہت اچھا قراردیا گیا تھا۔ اس اہم اسکیم میں انتہا پر پھیلے کرپشن کو دیکھ کر یہ ظاہر ہوتا ہے یہ سب کچھ سیاسی سازش کے تحت ہورہا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف مرکزی سرکار اور ریاستی سرکار اس کو صحیح معنوں میں کامیاب ہوتے دیکھنا چاہتے۔ دیگر سرکاری اسکیموں کی طرح منریگا بھی کرپشن کی بھینٹ چڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ اب لوٹ کھسوٹ کی اسکیم بن کر رہ گئی ہے۔ غریب کسان جس کے فائدے کے لئے اسے بنایا گیا تھا وہ ہی اس کے فائدے سے محروم رہ گیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟