اعظم خاں کی بوسٹن ہوائی اڈے پر بے عزتی کا معاملہ

امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالارینس کی پالیسی کے خلاف امریکی ہوائی اڈوں پر بڑے سے بڑے شخص چاہے وہ ایک ڈپلومیٹ ہو یا ایک وزیر ہو، ان کی گہری جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ امریکہ کے ہوائی اڈوں پر ہندوستانی کے سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، فلم اداکار شاہ رخ خان، عامر خان سمیت کئی اہم ہندوستانی لوگوں کو سکیورٹی کے نام پر روکا جاچکا ہے۔ تازہ معاملہ اترپردیش کے وزیر شہری ترقی اعظم خاں سے وابستہ ہے۔ ان کو بوسٹن ہوائی اڈے پر روکنے اور ان سے پوچھ تاچھ کرنے کے واقعے سے ایک بار پھر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے کے مسلم نام والے اشخاص سے ہی خاص طور سے پوچھ تاچھ کی جاتی ہے؟ کیا امریکی حکام یہ سمجھتے ہیں کے بھارت سرکار یا بھارت کی کسی ریاست کا ایک ذمہ دار وزیر کسی بھی طرح کی دہشت گردانہ سرگرمی میں شامل ہوسکتا ہے؟ اداکار کمل ہاسن بھی اس کا شکارہوئے ، ان کا نام مسلم معلوم ہوتا ہے حالانکہ وہ مسلمان نہیں۔ یہ ہی نہیں جس شخص کا رنگ و شکل و نسل گوری نہ ہو وہ ان کی زد میںآسکتا ہے خاص طور پر اگر وہ مشرقی وسطیٰ یا مشرقی ایشیا کا دکھائی پڑتا ہو۔ ویسے بوسٹن ان دنوں اس لئے بھی زیادہ سرگرم مانا جائے گا کیونکہ کچھ ہی دنوں پہلے بوسٹن میراتھن میں دو بم دھماکے ہو چکے ہیں ممکن ہے اس کے پیش نظر ہوائی اڈوں پر سکیورٹی انتظامات زیادہ پختہ ہوں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بوسٹن میراتھن میں حملہ کرنے والے مبینہ دونوں شخص گورے ہی تھے اور نہ ہی وہ مشرقی وسطیٰ سے تھے اور نہ ہی وہ سینٹرل ایشیا سے تھے۔ کیونکہ امریکہ آج واحد بڑی طاقت ہے اور اپنے آپ کو کسی کے لئے جوابدہ نہیں مانتا اس لئے اسے اس بات کی قطعی فکر نہیں کہ کس آنے جانے والے شخص سے کس طرح کا برتاؤ کررہا ہے اور کیا وہ ضروری بھی ہے۔ ویسے بھی امریکہ کو نہ تو دوسرے کے کلچر کے بارے میں کوئی واقفیت ہے اور نہ ہی وہ جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ جو شخص مرنے مارنے کے ارادوں میں اٹل ہو وہ تو امریکہ کے خفیہ ایجنسی ایس بی آئی میں بھی گولی باری کردیتا ہے۔ دنیا میں اب تک سب سے بڑا حملہ 9/11 کے وقت کا ہے جسے روکنے میں امریکی سکیورٹی ایجنسی ناکام رہیں۔اب وہ اتنی سخت ہوگئی ہیں کہ وہ سکیورٹی کے نام پر جسے چاہے بے عزت کردیتی ہیں۔ بہت سے لوگ تو ان اوچھی حرکتوں کی وجہ سے امریکہ کے دشمن بن جاتے ہیں۔ باہر کی بات چھوڑو امریکہ کے اندر ہی کالے اور سپینی شہریوں کے ساتھ امریکی سماج کا برتاؤ ایک جیسا نہیں ہے۔ اب وہ شخص جو امریکہ جانے سے پہلے 10 بار سوچتا ہے اعظم خاں سے ہوائی اڈے پر بدسلوکی کے بعد امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے لیکچرر کا بائیکاٹ کرکے اترپردیش کے وزیر اعلی نے نہ صرف امریکہ کو معقول جواب دیا بلکہ انہوں نے ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف امریکہ کے نظام کو معقول جواب دیا بلکہ ایسے واقعات سے دکھی مسلمانوں کے زخموں پر بھی مرحم لگایا ہے۔ دراصل 9/11 کے واقعے کے بعد امریکہ میں سکیورٹی کے نام پر ساری دنیا میں مسلمانوں پر ذیادتیاں بڑھی ہیں۔ یوں بھی دنیا بھر میں خاص طور پر بھارت کے مسلمانوں کے جذبات امریکہ کے خلاف بڑھکتے جارہے ہیں اور یہ تب ہے جب امریکہ کا صدر براک اوبامہ خود کو مسلمان کہتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟