آخر چین چاہتا کیا ہے؟ ان حرکتوں کے معنی کیا ہیں

کشمیر کے لداخ میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی پی ایل اے کی ایک پلٹون15 اپریل کی رات ڈی بی او سیکٹر میں واقع ہندوستانی سرحد کے10 کلو میٹر اندر آنے اور وہاں ٹینٹ لگانے سے تقریباً کارگل جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ جیسے کارگل میں سرحدی چوکیوں کو خالی چھوڑنا مہنگا پڑا تھا لداخ فرنٹیئر میں بھی چین سے ملحق سرحدی چوکیوں پر فوجیوں کوکبھی بھی تعینات نہیں کیا گیا اور اب ہندوستانی فوج لداخ میں واقع اپنی کور کے پورے جوانوں کو اس میں جھونکنے پر مجبور ہوگئی ہے۔خبر یہ بھی ہے کہ ہندوستانی سرحد میں دراندازی کرنے والے چینی فوجیوں کے ذریعے لداخ کے دولت بیگ اولڈی سیکٹر میں اپنی قبضائی جگہ سے ہلنے سے بھی انکار کردیا ہے۔ دو چینی ہیلی کاپٹروں نے لداخ سے کئی سو کلو میٹر جنوب مشرق میں واقع چمار کے ہندوستانی ایئربیس خطے کی خلاف ورزی کی جس کے بعد کشیدگی بڑھ گئی۔ حالانکہ مرکزی سرکار اور بھارتیہ فوج اس سے انکار کرتی گئی۔ چین کے ذریعے کوئی گھس پیٹھ کی جارہی ہے لیکن ملنے والی خبریں کہتی ہیں کہ لداخ سیکٹر میں چینی سرحد پر دونوں فوجوں کے درمیان کشیدگی کا ماحول جاری ہے جس کے نتیجے میں سرحد سے ملحق کئی گاؤں پہلے ہی خالی ہوچکے ہیں۔ لداخ کے مشرقی خطے یوشول میں بھارت چین کے فوجی حکام کی دو فلیگ میٹنگ ہوچکی ہیں اور دونوں بے نتیجہ رہیں۔ یہ جاننا اہم ہے کہ چین کی طرف سے یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب نئے چنے گئے چینی وزیر اعظم لی کیکیانگ اگلے ماہ بھارت کے دورہ پر آنے والے ہیں۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ انڈین ایئرفورس نے حال ہی میں اپنی مشقیں آپریشن ’’لائیو وائر‘‘ ختم کیا۔ جس دوران سرحد کے نزدیک حساس ہوائی ٹھکانوں کو چوکس کردیا گیا تھا۔ شاید اس سے بھی چینی بھڑکے ہوں۔ ادھر بھارت کو اندیشہ ہے کہ کہیں 1987ء کا واقعہ نہ دوہرایا جائے جب چین توانگ کے نارتھ میں سمووارونگ یو علاقے میں گھس آیا تھا اور پھر واپس نہیں گیا۔ وہ علاقہ آج بھی چین کے قبضے میں ہے۔ چین کی خارجہ پالیسی جارحانہ دکھائی پڑ رہی۔ بھارت ہی نہیں مشرقی چین ساگر میں جاپان سے ٹکرا رہا ہے۔ اب وہ خطرے کے زون میں داخل ہوگیا ہے۔
چین اور جاپان کے درمیان کافی عرصے سے تنازعہ چل رہا ہے۔ پچھلے سال اس جزیرے کو ذاتی مالک سے زیادہ جاپان کے ذریعے خریدے جانے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ تب سے لیکر اب تک چین اس خطے میں اپنی کشتیوں کے ذریعے نگرانی کرتا ہے جس پر جاپان نے کئی مرتبہ اعتراض جاتایا ہے۔ کسی بھی وقت یہ تنازعہ ایک خطرناک رخ اختیار کرسکتا ہے ۔ چین اپنے اعلان کے مطابق واقعی اگر بھارت سے مضبوط اور پائیدار اور طویل المدت رشتے قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے بھارت کی مانگ کے مطابق فوراً لداخ کے ڈی بی او سیکٹر سے اپنی فوجیں واپس بلالینی چاہئیں جہاں وہ پہلے بیٹھی ہوئی تھیں۔ بھارت میں گھس کر اپنے ٹینٹ گاڑھ رہی ہیں کیونکہ بھارت اور چین کی سرحد صحیح طریقے سے لائن اپ نہیں کی گئی ہے اس لئے متنازعہ علاقے میں کسی بھی جگہ کو اپنا حصہ بتادینا آسان نہیں ہے۔ اگراشو یہ ہے کے اگر چین کی منشا ٹھیک ہے تو اسکی فوج ایسے اشتعال انگیز قدم کیوں اٹھا رہی ہے؟ چین نے اگر جلدمثبت قدم نہیں اٹھائے تودونوں دیشوں کے درمیان رشتوں میں بہتری کی امیدوں پر گرہین لگ سکتا ہے۔ پچھلے مہینے چین میں نئی لیڈر شپ نے اقتدار سنبھالا ۔ نئے صدر شی زنگ پنگ اور وزیر اعظم لی کیکیانگ کے بیانوں سے اشارہ ملتا ہے کے وہ بھارت کے ساتھ پائیدار رشتے بنانے ان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ چین کے نئے وزیر اعظم لی کیکیانگ نے پروٹوکول کا خیال کرتے ہوئے بطور وزیر اعظم اپنے پہلا غیر ملکی دورہ کی شکل میں بھارت میں آنے کی خواہش جتائی ہے۔ چین کو اب سدھرنا ہوگا اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کے قول اور وفعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟