ناجائز طریقے سے آکر بنے بنگلہ دیشی درانداز گھر جمائی


بیشک آگ ابھی آسام میں مگر اس کی جڑیں قومی راجدھانی خطہ دہلی تک پھیل گئی ہیں۔ یہاں بھی ذرا سی چنگاری کبھی بھی آگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ میں ان ناجائز بنگلہ دیشیوں کی بات کررہا ہوں ۔ آج تک یہ صحیح اندازہ کسی نے نہیں لگایا کہ ان ناجائز بنگلہ دیشیوں کی دیش میں صحیح تعداد کتنی ہے؟ انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اینڈ اینالیسس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ دیش میں دو کروڑ سے زائد غیر قانونی بنگلہ دیشی شہری موجود ہیں۔ دیش میں رہنے والے اور ہندوستانی شہریوں مساوی سہولیات کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ ناجائز بنگلہ دیشی پرواسیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہنے پر دہلی کی ایک عدالت نے مرکزی حکومت کو حال ہی میں جم کر جھاڑ پلائی۔ عدالت نے دو بنگلہ دیشی شہریوں کو ڈکیتی و قتل کے معاملے میں عمر قید اور 10 سال کی قید کی سزا سناتے ہوئے سخت ریمارکس دئے۔ ایڈیشنل سیشن جج کامنی لا نے کہا ’’ہمارا دیش ان سبھی مجرمانہ عناصر کے لئے سورگ بن گیا ہے جو اپنے راستے میں آنے والے کسی شخص کے ساتھ انتہائی کٹرتا اور بربریت سے پیش آتے ہیں۔ انہوں نے کہا جب دیش کے اصلی شہری انتہائی غریبی کا سامنا کررہے ہیں تو سرکارکو بھارت میں غیر قانونی طریقے سے رہ رہے اور شہریوں جیسی سبھی سہولیت حاصل کررہے ان 3 کروڑ بنگلہ دیشیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے میں دقت کیا ہے؟‘‘ جج نے کہا سرکار اور انتظامیہ کی ٹھوس کارروائی میں کمی ہے جس نے عدالتوں کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ سرکاری ایجنسیوں کی ناکامی کہیں یا سیاستدانوں کی ووٹ پالیسی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کبھی جمنا کے کنارے بسے جھگی جھونپڑیوں میں مقیم بنگلہ دیشی دراندازوں نے اب سرکار کے ذریعے مہیا کرائے گئے مکانوں کو حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ان گھس پیٹھیوں کے پاس نہ صرف ہندوستانی ووٹر شناختی کارڈ ہے بلکہ راشن کارڈ سے لیکر تمام دستاویز موجود ہیں جو انہیں مقامی شہری بنانے کے لئے کافی ہے۔ یہ لوگ نہ صرف سرکاری سہولیات پا رہے ہیں بلکہ اب تو دلی این سی آر کے مسلم خاندانوں میں انہوں نے شادیاں بھی کرنی شروع کردی ہیں۔ دلی پولیس کے ریکارڈ میں چھوٹے بڑے کل 3 ہزار سے زائد بنگلہ دیشی جرائم پیشہ افراد کے بارے میں ریکارڈ درج ہے۔ ان میں کچھ تو ایسے ہیں جو باقاعدہ بنگلہ دیش میں بیٹھ کر ہی گروہ کو چلاتے ہیں۔ دلی پولیس کے ایک اعلی افسر کے مطابق مسئلہ بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کے ہندوستانی کلچر میں رچ بسنے سے زیادہ ہورہا ہے۔ ایسے کئی بنگلہ دیشی پکڑے گئے ہیں جنہوں نے ہاپوڑ ،دادری وغیرہ علاقوں میں شادیاں کررکھی ہیں۔ کئی بار یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بنگلہ دیشیوں کو پکڑ کر سرحد پار چھوڑنے گئی پولیس کے واپس لوٹنے سے پہلے ہی یہ بنگلہ دیشی دوبارہ دلی پہنچ جاتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش سے آئے کچھ لوگ نقلی کرنسی بھی اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ حال ہی میں کرائم برانچ نے دو ایسے معاملے پکڑے ہیں جس میں مغربی بنگال سے نقلی نوٹ دلی لائے گئے تھے۔ یہاں آکر مرد جہاں چوری ، لوٹ مار کا کام کرتے ہیں وہیں ان کی عورتیں بچے منشیات کی اسمگلنگ میں لگ جاتے ہیں۔ لوٹ کا مال کھپانے کے لئے کچھ ٹریول ایجنٹوں کی بھی مدد لی جاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ پورے دیش میں کبھی بھی آگ پھیل سکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟