گتیکا کی موت : یہاں تو ہر موت کے پیچھے ایک کہانی ہے


پچھلے کئی دنوں سے گتیکا شرما اور گوپال کانڈا کا کیس اخباروں کی سرخیاں بنا ہوا ہے۔ گتیکا خودکشی معاملے میں شاید کچھ نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے معاملے سامنے آچکے ہیں جن میں لڑکیوں کا قتل یا خودکشی جیسے معاملوں کی گتھی کے پہلو سامنے آئے۔ آخر ایسے معاملوں میں قصور کس کا ہے، ان لڑکیوں کا جو ترقی کرنے کے لئے ایسے جعل میں پھنس جاتی ہیں جس سے نکلنا کئی بار ناممکن ہوجاتا ہے یا پھر وہ ذمہ دار ہیں جو اپنی خواہشات کی قیمت وصولنا جانتی ہیں۔ گتیکا سے پہلے حال ہی میں ہمارے سامنے انورادھا بالی عرف فضا کا معاملہ آیا۔ مشتبہ حالات میں ابھی حال ہی میں اس کی موت ہوگئی۔ پولیس یہ پتہ نہیں لگا پائی کے فضا کی موت خودکشی ہے یا قتل یا پھر شراب کی زیادہ مقدار لینے سے اس کی موت ہوئی ہے۔ہریانہ کے سابق نائب وزیر اعلی چندر موہن عرف چاند کے ساتھ محبت کی یہ کہانی ایک مہینے بھی نہ چلی اور فضا اور چندر موہن کی شادی ٹوٹ گئی۔ اب سامنے رہ گئی موت کی ایک اور کہانی مدھیہ پردیش کی آر ٹی آئی رضاکار شہیلا مسعود کی موت کی کہانی بھی سیاسی داؤ پیچ کی طرف گھوم رہی ہے۔ کہتے ہیں مدھیہ پردیش کے بی جے پی کے ایک طاقتور لیڈر دھورو نارائن سنگھ اور شہیلا میں کافی قربت تھی۔ پولیس کا کہنا ہے یہ قربت دھورو نارائن کو چاہنے والی انٹیریئر ڈیزائن زاہدہ پرویزبالکل پسند نہیں تھی۔ زاہدہ نے شہیلا مسعود کو ہی سپاری دے کر مروا ڈالا۔ سی بی آئی نے کیس کی تفتیش کی تو اس کی ساری پرتیں کھل گئیں۔ سی بی آئی نے زاہدہ کو بنیادی ملزم بناتے ہوئے معاملے میں چارج شیٹ عدالت میں داخل کردی ہے۔ اسی طرح کئی اور معاملے بھی ہیں جن میں میرٹھ کی ایک پروفیسر کویتا چودھری، صحافی شیوانی بھٹناگر، شاعرہ مدھومتا شکلا کے کیس قابل ذکر ہیں۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کل سماج میں زیادہ تر لوگ جلدی سے جلدی بہت کچھ پالینا چاہتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت وہ اپنی عدم سلامتی سے گھر جاتے ہیں۔ بہت جلدی آگے بڑھنے کی اس چاہت کا کچھ لوگ غلط فائدہ اٹھانے کی تاک میں رہتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ذاتی زندگی اور پروفیشنل لائف کو ہمیشہ الگ رکھنا چاہئے۔ پرسنل لائف اور پروفیشل لائف میں جہاں تال میل ہوا وہیں مسئلوں کی شروعات ہوجاتی ہے جو لوگ حساس اور جذباتی ہوتی ہیں ان کے ساتھ ایسی پریشانیاں خاص طور پر کھڑی ہوجاتی ہیں کیونکہ کسی شخص کو سبز باغ دکھائے جانے پر ایسے لوگ آسانی سے جذباتی ہوجاتے ہیں اور راغب ہوجاتے ہیں اور اسی جذبات کی وجہ سے جعل میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔ ایسے میں جب ان کی توقعات ٹوٹتی ہیں تو وہ کشیدگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور انسان اس سے ٹوٹنے لگتا ہے اور خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ دراصل اس طرح کے بھٹکاؤ سے بچنے کے لئے بیلنس لائف اسٹائل کی ضرورت ہے۔ زندگی میں یہ صحیح ہے کہ توقعات اور خواہشات پالنی چاہئیں لیکن ان کا راستہ پختہ ہونا چاہئے۔ سپنوں میں جینا بری بات نہیں لیکن اس کا بھی ایک متوازن راستہ ہونا چاہئے۔ ان سارے معاملوں میں خاندان والوں کا بھی رول اہمیت کا حامل رہا ہے۔ سب جانتے ہوئے بھی وقت رہتے کسی نے روکا نہیں کیونکہ سبھی اس کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟