کشمیر میں مسلح فورس اسپیشل سیکورٹی ایکٹ ہٹانے کی مانگ



Published On 25th October 2011
انل نریندر
جموں و کشمیر سے مسلح فورس مخصوص اختیارات ایکٹ ہٹانے کو لگتا ہے کہ ایک بار پھر اعلی سطح پر بحث اور اسے ہٹانے کی غلطی کرنے کی کوشش شروع ہوچکی ہے۔کشمیر پالیسی ہمیشہ سے اس حکومت کی گول مول رہی ہے۔کشمیر کے مسئلے پر مقرر تین مذاکرات کاروں کی سفارشوں کو بنیاد بنا کر مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم کافی حد تک یہ داؤ کھیلنے کا من بنا چکے ہیں۔ پچھلے سال ریاست کے کچھ حصوں سے فوجیوں کو ہٹانے اور اسکے بعد سے ریاست میں حالات معمول پر رہنے کا تجربہ کامیاب مانا جارہا ہے۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ ان کے والد و مرکزی وزیر فاروق عبداللہ اور علیحدگی پسندلیڈراس مسئلے پر ایک ہیں۔ یہ سبھی چاہتے ہیں کہ ریاست سے مسلح فورس و مخصوص اختیارات ایکٹ ہٹایا جائے جبکہ فوج کی رائے اس کے برعکس ہے۔ ایک طرح سے اس مسئلے پر جموں وکشمیر حکومت اور وزارت داخلہ ایک ہیں۔ڈیفنس وزارت اور فوج اس کے برعکس ہے۔
کیا کوئی سکیورٹی ملازم دونوں ہاتھوں کو پیٹھ کے پیچھے رکھ کر خونخوار بندوقی آتنک وادیوں کا مقابلہ کرسکتا ہے؟ اور اگر اس کے ہاتھوں میں بندوق دے کر اسے سامنے سے فائر کرنے والے پر گولی نہ چلانے کا حکم دیا جائے تو وہ کیا لڑائی کرے گا۔ کچھ ایسی ہی حالت عمر عبداللہ اپنے راجیہ میں چاہتے ہیں اور چدمبرم ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ ان اختیارات کے بغیر کشمیر میں دہشت گردی کا مقابلہ مشکل ہے۔ ایک سینئر فوجی افسر نے کہا کہ آپ خود سوچیں جن آتنک وادیوں کے مقابلے میں آپ کو خود واویلے میں پڑنے کا خطرہ ہو تو آس پاس سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ کیا آپ جس آتنکی کا مقابلہ کرنے جارہے ہیں کیا وہ آپ پر پھول برسائے گا؟ فوجی ہیڈ کوارٹر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سرحد پار ابھی بھی 50 سے زائد آتنکی کیمپ چل رہے ہیں۔
اتنا ہی نہیں سرحد پار قریب100 سے زیادہ آتنکی دراندازی کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ دراندازی سے لیکر آتنکی حملوں کا بھی خطرہ بنا ہوا ہے۔ پھر آتنکی پہلے کی بہ نسبت ہر سال ہائی ٹیک ہوتے جارہے ہیں۔ آتنکیوں کے پاس نہ صرف جدید ترین ہتھیار ہیں بلکہ الیکٹرانک سازو سامان بھی ہیں بلکہ دیگر تکنیکی تیار کردہ دھماکوں سازو سامان بنانے میں بھی ماہر ہورہے ہیں۔ آتنکیوں کی ٹریننگ بھی کمانڈو سطح پر ہورہی ہے اور وہ ہندوستانی زبانوں کو سیکھ کر آتے ہیں۔ایک نیا فیکٹر جس کا ہمیں خیال رکھناہوگا وہ یہ ہے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بہت سے چینی فوجی موجود ہیں جو ان آتنک وادیوں کو ہرممکن مدد دے رہے ہیں۔ ایسے میں جموں و کشمیر کی اس سرحدی ریاست میں فوج کے سامنے مسلسل چنوتیاں بڑھ رہی ہیں۔ آج اگر جموں و کشمیر میں تھوڑی سی شانتی ہے تو وہ فوج کی موثر حکمت عملی کی وجہ ہے۔ فوج کے افسروں میں کٹوتی کی مانگ کرنے والوں کے سامنے ملک کی سلامتی سے زیادہ اپنے ووٹ بینک کی پالیسی زیادہ حاوی لگ رہی ہے۔
اگر عمر عبداللہ اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہیں تو مرکزی حکومت کو ان کی ہر مانگ پر ہاں نہیں ہونی چاہئے۔ وزارت داخلہ کو ڈیفنس وزارت سے سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کرنا چاہئے اور جو بھی فیصلہ لینا ہے وہ ملک کے مفاد میں ہونا چاہئے۔ محض کسی سیاسی پارٹی کے ووٹ بینک کی حکمت عملی کو بڑھانے کے لئے نہیں ہونا چاہئے۔ دیش کی سلامتی بالاتر ہے۔
AFSPA, Anil Narendra, Daily Pratap, Indian Army, Jammu Kashmir, Terrorist, Umar Abdullah, Vir Arjun

تبصرے

  1. Positive steps often open new horizons. The Politicians and Uniformed people have developed a vested interst by now and they create a hype in order to ensure they remain in power in the same manner th Pakistani Military regime does.Money is often exchanged to release the militants; the ammunition and arms caught are often sold in parallel market and this is besides branding non-militants as militants. somewhere there needs to be a thaw in the relations.

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟