ہیرو سے ولن تک کاقذافی کا طویل سفر




Published On 23rd October 2011
انل نریندر
لیبیا میں 22 سال تک حکومت کرنے والا 69 سالہ ڈکٹیٹر معمر قذافی آخر کار جمعرات کو مارا ہی گیا۔ اس کی موت اس کے آبائی شہر مسراتا میں سر اور پیر میں گولیاں لگنے سے ہوئی۔ حملے میں اس کے بیٹے متصم اور فوج کے سربراہ ابوبکر یوسف زبر تک سمیت کئی ساتھی بھی مارے گئے۔ قذافی کے گڑھ پر باغی فوجیوں نے قبضہ کرلیا تھا اور اس پر ناٹو حملے بھی ہورہے تھے۔ قدافی ہوائی حملے میں پہلے ہی بری طرح زخمی ہو چکا تھا۔ باقی فوجیوں کے مطابق وہ ایک پائپ لائن میں چھپ کر بیٹھا تھا۔ فوجیوں کو بڑھتے دیکھ کر وہ گڑ گڑانے لگا' مجھے مت مارو ،مجھے مت مارو۔۔۔'' لیکن فوجیوں نے ایک نہ سنی اور اس کے سر اور دونوں پیروں میں گولی ماردی جس سے اس کی موت ہوگئی۔ باغیوں کے مطابق اس کے پاس سے ایک سونے پستول ملی۔ وہ فوجی وردی میں تھا۔ قذافی ہمیشہ سے ہی متنازعہ شخصیت رہے۔ کچھ لوگوں کی نظروں میں جب42 سال قبل انہوں نے شاہ ادریس کا تختہ پلٹا اور اقتدار حاصل کیا تو ابتدائی برسوں میں انہوں نے کئی اچھے کام کئے۔ انہوں نے اپنا ایک سیاسی نظریہ قائم کیا جس پر انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی جو ان کی نظر میں اس خطے میں پلیٹولاک اور مارکس کی طرز فکر سے بھی کہیں آگے تھی۔ کئی عرب اور عالمی میٹنگوں میں وہ نہ صرف اپنے الگ قسم کے لباس کی وجہ سے بلکہ دھنواں دھار تقاریر اور اپنے وراثتی رنگ ڈھنگ سے بھی الگ نظر آئے۔ سال1969 میں جب انہوں نے فوجی تختہ پلٹ کر اقتدار حاصل کیا تھا تو معمر قذافی ایک خوبصورت اور کرشمائی نوجوان فوجی افسر تھے۔خود کو مصر کے جمال عبدالناصر کا شاگرد بتانے والے قذافی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد خود کو کرنل کے خطاب سے نوازا اور دیش کی اقتصادی اصلاحات کی طرف توجہ دی، جو برسوں کی غیر ملکی وابستگی کے چلتے خستہ حالت میں تھی۔ اگر ناصر نے سوئز نہر کو مصر کی بہتری کا راستہ بنایا تھا تو کرنل قذافی نے تیل کے ذخائر کو اس کے لئے چنا۔ لیبیا میں 1950 کی دہائی میں تیل کے بڑے ذخیروں کو پتہ چلا تھا لیکن اس کی تلاش کا کام پوری طرح سے غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھ میں تھا جو اس کی ایسی قیمت طے کرتے تھے جو لیبیا کیلئے نہیں بلکہ خریداروں کو فائدہ پہنچاتی تھی۔ قذافی نے تیل کمپنیوں سے کہا کہ یا تو وہ پرانے معاہدے پر نظرثانی کرتے یا ان کے ہاتھ سے کھوج کا کام واپس لے لیا جائے گا۔
لیبیا وہ پہلا ترقی پذیر ملک تھا جس نے تیل کی کھدائی سے ملنے والی آمدنی میں بڑا حصہ حاصل کیا۔ دوسرے عرب ممالک نے بھی اس پر عمل کیا ۔ عرب دیشوں میں 1970ء کی دہائی میں پیٹروبوم یعنی تیل کی بہتر قیمتوں سے شروع ہوا خوشحالی کا دور۔ قذافی نے اپنے ابتدائی دور میں لیبیائی شہریوں کے لئے کئی اسکیمیں شروع کیں کہ وہ ہیرو بن گئے۔ لیکن پھر انہوں نے دہشت گرد عناصر کی حمایت کرنا شروع کردی اور آہستہ آہستہ وہ ایک ڈکٹیٹر بن گئے جو اپنے کسی بھی مخالف کو برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ جو بھی اس کے خلاف آواز اٹھاتا اسے گولی ماردی جاتی۔ برلنگ میں ایک نائٹ کلب پر سال1986 میں ہوا حملہ قذافی کی مدد سے کٹر پنتھیوں نے کیا تھا۔ اس کلب میں اکثر امریکی فوجی آیا کرتے تھے۔ واقعی سے ناراض امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ترپولی اور بین غازی پر ہوائی حملے کئے۔
دوسری واردات جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا وہ تھا لاکربی شہر کے پاس امریکی ایئر لائنس جہاز میں بم دھماکہ جس میں270 لوگ مارے گئے تھے۔ کرنل قذافی نے حملے کے مشتبہ کو اسکاٹ لینڈ کے حوالے کرنے سے منع کردیا۔ اس کے بعد لیبیا کے خلاف اقوام متحدہ نے اقتصادی پابندی لگادی جو دونوں لوگوں کو سرنڈر کرنے کے بعد 1999ء میں ہٹا دی گئی۔ 2010 ء میں تیونس میں عرب دنیا میں تبدیلی کا انقلاب شروع ہوا تو اس سلسلے میں جن ملکوں کا نام لیا گیا اس میں لیبیا پہلی فہرست میں نہیں تھا۔ کیونکہ قذافی مغربی دیشوں کا پٹھوں نہیں سمجھا جاتا تھا جو علاقے میں جنتا کی ناراضگی کا سب سے بڑا سبب مانا جاتا تھا۔ انہوں نے تیل سے ملنے والی دولت کو بھی دل کھول کر بانٹا۔ یہ بات الگ ہے کہ آخری کچھ برسوں میں اس کی توجہ اپنے اور اپنے خاندان کو امیر بنانے میں مرکوزہوگئی۔ ایک اندازے کے مطابق قذافی کے پاس 7 بلین ڈالر (یعنی 3.5 کھرب روپے) کی مالیت کا سونا تھا۔ کینیڈا میں 2.4 بلین ڈالر یعنی1.19 کھرب روپے، آسٹریلیا میں1.7 بلین ڈالر یعنی 84 ارب روپے، برطانیہ میں 1 بلین ڈالر یعنی 49 ارب روپے جو لیبیا انقلاب شروع ہونے کے بعد ضبط کئے گئے ہیں۔دنیا بھر کے بینکوں میں لیبیا کی168 ارب ڈالر جمع ہیں۔ چھ ماہ چلی بغاوت میں لیبیا کو 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
معمر قذافی اپنی طرز زندگی جینے کے طور طریقوں اور خاص طور پر امریکہ کے ساتھ رشتوں کو لیکر ہمیشہ سرخیوں میں رہے۔ اکثر خبریں آتی تھیں کہ ان کی سکیورٹی گارڈ خواتین تھیں۔ ایک بار جب وہ امریکہ گئے تو کسی عمارت میں نہ ٹھہر کر اپنا کیمپ الگ لگا کر رہتے تھے۔ 1942ء میں قذافی کی پیدائش ایک خانہ بدوش خاندان میں ہوئی تھی۔ 1961ء میں لیبیا کی یونیورسٹی میں تاریخ کی طالب حاصل کرنے گئے تھے اس کے بعد وہ بین غازی فوجی اکیڈمی میں شامل ہوگئے۔1965 گریجویٹ ہونے کے بعد قذافی لیبیا فوج میں سروس کرنے لگے۔ انہیں 1966 میں ٹریننگ دینے کے لئے برٹین کی رائل فوجی اکیڈمی سنفورت بھیجا گیا۔ یکم اگست1969 ء کو قذافی کی لیڈر شپ میں فوجی افسران کے ایک دستے نے فری آفیسر مومنٹ نے خونی انقلاب کے ذریعے اس وقت کے حکمراں شاہ ادریس کو مار گرایا اور لیبیا میں عرب جمہوریت قائم کی۔ قذافی کبھی بھی بھارت کا دوست نہیں رہا۔
1971 کی جنگ کے بعد وہ کھلے طور سے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ماتم میں شامل ہوا تھا۔ یہ ہی نہیں انہوں نے مسلم ممالک سے اسلامی بینک اور اسلامی بن بنانے کی اپیل کی تھی تو ڈکٹیٹر قذافی نے جنگوں کو سب سے زیادہ فروغ دیا تھا۔ بھٹو بھی قذافی سے اتنے متاثر تھے کہ ان کے نام پر اپنے دیش میں ایک اچھا اسٹیڈیم بھی لاہور میں بنا دیا۔ قذافی نے ایک بار بھارت کو اس وقت بھی سفارتی الجھن میں ڈال دیا تھا جب انہوں نے کشمیر کو ایک آزاد ملک بنانے کی حمایت کی تھی اور کہا کہ یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک پل ہونا چاہئے۔ سال2009ء میں اقوام متحدہ میں اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت ان دیشوں میں شامل ہے جو سکیورٹی کونسل میں مستقل سیٹ کے لئے کوشش میں لگا ہوا ہے۔ کشمیر آزاد دیش ہونا چاہئے نہ ہندوستانی نہ پاکستانی۔ ہمیں اس لڑائی کو ختم کرنا چاہئے۔ یہ پہلی بار تھا جب ہندوستانی برصغیر سے باہر کسی اسلامی لیڈر نے بھارت اور پاکستان سے کشمیر کی آزادی کی وکالت کی تھی۔
معمرقذافی نے صدام حسین کے شکنجے میں پھنسنے کے بعد مغربی ممالک کے سامنے ہتھیار ڈالے اور امریکہ کا وست بن گیا لیکن جب عرب انقلاب شروع ہوتے ہی ان کے اندر کی تاناشاہی جاگ گئی۔ اس دوران جمہوریت تحریک کو دبانے کے لئے انہوں نے اجتماعی آبروریزی جیسے جدید ہتھیار کو اپنانے سے پرہیز نہیں کیا۔ کرنل قذافی کی اس حرکت سے نہ صرف مغرب کی دوہری پالیسی کی ہی ایک مثال ہے یوروپ۔ امریکہ نے عرب ممالک کو زیادہ سے زیادہ لوٹا کھسوٹا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑدیا۔
ظاہر ہے مغرب کی حمایت کے بغیر قذافی چار دہائی تک اپنا نکمی حکومت نہیں چلا سکتا تھا اور اب ان کی موت کے بعد لیبیا کو جمہوریت کے راستے پر لے جانے کا راستہ نہ تو قومی انترم کونسل کے پاس ہے اور نہ ہی ان کے آقا یوروپ امریکہ کے پاس ہے۔ جب افغانستان اور عراق میں امن اور استحکام کا مقصد پورا نہیں ہو پایا تو لیبیا کے حالات تو جرمنی سے بھی پیچیدہ ہیں۔ آخری لمحوں تک قذافی نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ غیر ملکی فوج نئی سرکار کے لڑاکو کے خلاف گھنٹوں مورچہ سنبھالے رکھا۔ فوج نے جس بربریت سے لاتوں اور گھونسوں سے پٹائی کی اور پیر اور پیٹھ میں گولی مارہے یہ ایک طرح سے انسانیت کے خلاف ہے۔
A K Antony, America, Anil Narendra, Daily Pratap, Gaddafi, Libya, USA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟