ان ریو (نشہ) پارٹیوں نے تو تباہی مچا رکھی ہے


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 1st July 2011
انل نریندر


پچھلے دنوں رائے گڑھ ضلع میں ایک ہوٹل میں چل رہی ریو (نشہ) پارٹی پرچھاپہ مارتے ہوئے وہاں سے ممبئی منشیات انسداد برانچ کے ایک انسپکٹر سمیت پانچ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ رائے گڑھ پولیس کے سپرنٹنڈنٹ آر ڈی شنڈے نے بتایا کہ اس پارٹی میں گرفتار کئے گئے انسپکٹر کا نام انل جادھو ہے۔ پارٹی میں نوجوانوں کو منشیات دی جارہی تھی۔ ضلع کے کھلاپور میں ایتوار کی رات ہوئی اس پارٹی میں جانے مانے خاندانوں کی 59 لڑکیوں سمیت تقریباً290 لڑکے شامل ہوئے۔ سبھی کو میڈیکل جانچ کے بعد جانے دیاگیا۔ رپورٹ آنے کے بعد پولیس ان لوگوں پر کارروائی شروع کرے گی جنہوں نے منشیات لیں تھیں۔ پولیس نے ایتوار کی دیر رات کھالاپور کے ہوٹل ماؤنٹ آبو میں ہورہی اس پارٹی میں چھاپہ مار کر یہاں سے گانجھا، چرس اور کوکن کے علاوہ 3.8 لاکھ روپے نقد بھی برآمد کئے۔پچھلے دنوں گجرات میں بھی ایک ایسی ہی ریو پارٹی کو پولیس نے پکڑا تھا۔ دونوں جگہ ایک بات خاص ہے کہ شراب، کال گرلز اور بے سدھ ہوکر ناچتے اور شراب اور ڈرگس لیتے ہوئے نوجوانوں کو پکڑا گیا اور یہی عالم ہوتا ہے تقریباً ہر ریو پارٹیوں کا۔ ان دونوں پارٹیوں میں فرق تھا تو بس یہ ہی کہ ایک گجرات کی پارٹی میں گرفتار ملزمان کا تعلق ریاست کے نامی گرامی لوگوں سے ہے۔ اس لئے ان کے نام اجاگر نہیں کئے گئے۔ جبکہ ممبئی کی پارٹی میں پکڑے گئے زیادہ تر لڑکے تھے اور ان کی عمر ایسی دہلیز پر ہے جہاں ان کے بہکنے کے پورے امکانات ہوتے ہیں۔کل ملاکر ہر عمر ، ہر درجے، ہر طبقے کے لوگ اس کے شکار ہورہے ہیں۔ مجھے کوئی تعجب نہیں ہوگا اگر جلدی ہی یہ سننے کو ملے کہ والدایک ریو پالس میں پکڑا گیا، بیوی دوسری میں اور بیٹا بیٹی تیسری ریو پارٹی میں پکڑے جائیں۔ ہم بے وجہ ہی کہتے ہیں کہ دیش میں نوکریوں کی کمی ہے۔ دیکھئے کتنی نوکریاں بکھری پڑی ہیں۔ ایک طرف تو غریبی کے سبب لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں تو دوسری جانب یہ لوگ لاکھوں روپے ان پارٹیوں میں شراب، ڈرگس میں اڑا رہے ہیں۔ دیش میں بیشک بھکمری ہو لیکن ایسی پارٹیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ نوجوان پیڑھی کو تو کھانے کی کمی نہیں وہ تو پی کر ہی نشہ کرکے کام چلا رہے ہیں۔ ریو پارٹی ایسے عیاش لوگوں کا جمگھٹ ہے جہاں شراب پینے ،کھلے بند ناچنے، ڈرگس کی ہی زندگی گذارنے لگے ہیں ان سے تو بات کرنا بھی بیکار ہے کیونکہ وہ پوچھتے ہی کہہ دیں گے کہ آپ جیسے پرانی دقیانوسی باتیں کیوں کررہے ہیں۔ ویسے بھی مغربی کلچر کا اتنا اثر آج دیش کے نوجوانوں پر چھاگیا ہے کہ وہ والدین کی ہر بات کی مخالفت کرنا اپنا پیدائشی حق مانتے ہیں۔ ویسے ایسے والدین کی بھی کمی نہیں جنہیں خود سوشلائزنگ سے فرصت نہیں۔ انہیں اس کی پرواہ نہیں کہ ان کے بچے کیا کررہے ہیں، کہاں جارہے ہیں، کب آرہے ہیں، سبھی خود کی زندگی اپنے انداز میں جینا چاہتے ہیں۔ بڑے بوڑھوں کی عزت کرنے کے دن لدھ گئے ہیں۔ سوشلائزنگ کی خاطر آج درمیانے طبقے کی لڑکیوں کو ان کے لئے اپنا اسٹیٹس بنائے رکھنا ، اپنی عزت بحال رکھنے سے زیادہ اہم ہے کے ایسی پارٹی میں اپنی حدیں توڑنا اتنا ہی آسان ہے جتنی آسانی سے وہ اپنے ماں باپ کا بھروسہ گنوا دیتے ہیں۔ انہیں تو اپنے پاپا کا جنم دن یاد رہے گا نہ ماں باپ کی شادی کی سالگرہ، انہیں کہاں کب ریو پارٹی ہو رہی ہے یہ ضرور یاد رہے گا۔ آج کل فیس بک آگیا ہے اس میں بندے بندیوں کی سب تفصیلات مل جاتی ہیں اور ایک دوسرے سے فون پر رابطہ کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔انہی کمیونٹی سائٹوں سے فون نمبر ایکسچینج ہوتے ہیں۔ جگہ طے ہوتی ہیں۔ لڑکے آپس میں ملنے کیلئے برقرار رہتے ہیں۔ ہم بیکار ہی کہتے ہیں کہ لوگوں کے پاس وقت نہیں، ایک دوسرے کیلئے یا لوگ اب سوشل نہیں رہے، لیکن ان ریو پارٹیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ لڑکے تو پہلے سے کہیں زیادہ سوشل ہوگئے ہیں۔ اب وہ سماج کے پرانے اصولوں کو توڑ کر اپنا نیا راستہ ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جسم فروشی کے کاروبار کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان ریو پارٹیوں میں اتنا فری سیکس ملتا ہے کہ اس کے بعد سیکس کا چسکا لگ جاتا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کا ٹوٹنا کئی معاملوں میں خطرناک ثابت ہورہا ہے۔ پہلے گھر کے بڑے بوڑھے جو کہتے تھے بچوں کو ماننا پڑتا تھا اور تہذیب کے دائرے میں رہنا پڑتا تھا۔ بچوں کو بوڑھے بڑے اچھے سنسکار دیتے تھے، ان پر کڑی نظر رکھتے تھے لیکن اب یہ سب ختم ہوتا جارہاہے۔ پیسوں کے لالچ اور مغربی کلچر نے یہ سب توڑ دیا ہے اور مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ ایسا ہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب سماج کی تباہی انتہا پر ہوگی، شادی، رشتے اور سماجیت جیسی باتیں صرف قصے کہانیاں ہی بن کر رہ جائیں گی۔ جسم فروشی ، نشہ خوری اور بڑھتا جرائم عام بات ہوجائے گی۔
Tags: Anil Narendra, Daily Pratap, Maharashtra, Mumbai, Rev Party, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟