بندیلکھنڈ میں کسانوں کی خودکشی کا نہ رکتا سلسلہ

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
28جون 2011 کو شائع
انل نریندر
 پچھلے کئی دنوں سے اترپردیش میں آبروریزی، قتل و کرمنلوں کی بات ہورہی ہے۔ چاہے وہ سیاسی پارٹیاں ہوں ، چاہے الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، سبھی ان خبروں کو ترجیح دیتے نہیں تھکتے۔ جبکہ سنگین معاملوں پر کسی کو توجہ دینی کی ضرورت نہیں لگتی۔ آج انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں رہی۔ کسان خودکشی کرتے ہیں تو یہ خبر نہیں بنتی، بریکنگ نیوز نہیں بنتی لیکن چھوٹے سے چھوٹا کرمنل واردات کرجاتا ہے تو اس پر کافی توجہ دی جاتی ہے۔ اترپردیش کے بندیلکھنڈ علاقے میں کسانوں کی اتنی بری حالت ہے کہ عام آدمی کو چونک جانا چاہئے۔ بیوی کے علاج میں دو بیگھہ زمین بیچ کر محض تین بیگھہ میں تین بچوں کے ساتھ زندگی بسر کررہے کسان کی قرض کے بوجھ اور بیماری سے موت ہوگئی، ان پر بینک اور سرکاروں کا تقریباً 70 ہزار روپیہ قرضہ بتایا گیا ہے۔ دیہاتیوں نے انتم سنسکار کردیا۔انترا تحصیل علاقے کے بگھیلاباری گاؤں کے کسان سریش یادو (42 سال) ولد رام بہاری کی لاش 15 دن پہلے سنیچر کے روز صبح گھر کے نزدیک اسی کھیت میں پڑی ملی۔ بیوی کی ڈیڑھ برس پہلے ہی ٹی بی کی بیماری سے موت ہوگئی تھی۔ ان کے علاج میں سریش کو دو بیگھہ زمین بیچنی پڑی۔ سریش یادو جیسی سینکڑوں کہانیاں ہیں۔ پچھلے دنوں بڑی تعداد میں کسانوں کی جانب سے خودکشی کے واقعات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے الہ آباد ہائیکورٹ نے مرکزی اور ریاستی حکومت سے ایک ماہ کے اندر جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔ جسٹس سنیل امبوانی ، جسٹس سبھاجیت یادو کی ڈویژن بنچ نے کسانوں کی خودکشی کے معاملے میں خود نوٹس لیتے ہوئے اسے مفاد عامہ کی عرضی کے طور پر قبول کرلیا۔ریاستی حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ہر کسان کی خودکشی کے معاملے کی تفصیل، ہسپتالوں ، بلاکوں اور پولیس تھانوں سے اکٹھے کرکے اگلی سماعت تک پیش کردی جائے۔ چیف سکریٹری سے سبھی بینکوں کے ذریعے دئے گئے زرعی قرضوں کی تفصیل بھی دستیاب کرانے کو کہا گیا ہے۔ قومی اور پرائیویٹ بینکوں، مالیاتی اداروں، کو آپریٹو بینکوں، کھادی گرام ادیوگ اور وکاس بورڈ کو کسانوں سے 15 جولائی تک قرض نہ وصولنے کا عدالت نے حکم دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بندیلکھنڈ کے باندہ، ہمیرپور، جھانسی ،للت پور، مہوبہ اور جالون اضلاع میں سال 2009 میں 568 جبکہ 2010 میں 583 اور 2011 کے پانچ مہینوں میں519 کسانوں نے خوشک سالی اور غربت سے تنگ آکر خودکشی کی ہے۔ بندیلے ہربولوں کی سرزمین پانی ، ہجرت و فاقہ کشی اور قرض کے دباؤ میں ہورہی اموات سے لڑ رہی ہے۔بندیلکھنڈ میں قرض کے چلتے کسانوں کے جان دینے کا یہ سلسلہ اس وقت سامنے آیا جب کسانوں کو قرض سے نجات دلانے کیلئے سرکار اور انتظامیہ کی جانب سے نام نہاد راحت کا پٹارہ کھولا گیا۔ پچھلے کچھ سالوں سے باندہ بندیلکھنڈ کے بعد سے بدتر ہوتے حالات کے سبب کسانوں نے کھیتی سنوارنے اور ذاتی روزگار شروع کرنے کے لئے اپنے اوپر اربوں روپے کا قرض چڑھا لیا۔ اکیلے باندہ ضلع میں کافی کسانوں نے بینکوں سے تقریباً ساڑھے چار کروڑ روپے کا قرض لیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بنیوں سے قرض لی گئی رقم بھی کروڑوں میں بتائی جاتی ہے۔ باندہ کے تقریباً 13 ہزار کسانوں پر کسان کریڈٹ کارڈ سے لئے گئے 25 کروڑ روپے کی دینداری ہے۔ تین ہزار سے زیادہ کسانوں کو ڈفالٹر قراردے دیا گیا ہے۔ اس سے کسانوں پر اور دباؤ بڑھ گیا ہے۔ دباؤ نہ برداشت کرپارہے کسان خودکشی کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکز اور ریاستی حکومت اس پیچیدہ مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرے اور ایسے قدم اٹھائے جس سے کسانوں کی خودکشی کا سلسلہ رک سکے۔ کہنے کو تو ہندوستان دنیا کی بڑی معیشت والی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے لیکن بنیادی حقیقت یہ ہے کہ آج بھی قرض ، مہنگائی اور بیماری کے سبب کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔
 Tags: Anil Narendra, Bundel Khand, Daily Pratap, Farmers Agitation, Farmers Suicide, Mayawati, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟