راہل کی تاجپوشی کی جلدی کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
26جون 2011 کو شائع
انل نریندر
کانگریس کے اندر گھمسان جاری ہے۔ پارٹی کا ایک طبقہ جو کافی بڑا ہے ، کا خیال ہے کہ راہل گاندھی کو جلد سے جلد وزیر اعظم بنایا جائے۔ اگر راہل اس کے لئے تیار نہ ہوں تو انہیں پارٹی کی خاطر، دیش کی خاطر منایا جائے۔ سونیا گاندھی کے دباؤ میں بھلے ہی دگوجے سنگھ کو راہل گاندھی کے وزیر اعظم بننے والے اپنے بیان سے پیچھے ہٹنا پڑا ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پارٹی اب ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ہٹانا نہیں چاہتی۔ کانگریس کے ترجمان جینتی نٹراجن کو بھی یہ صفائی دینی پڑی ہے کہ راہل مستقبل کے لیڈر ہیں اور منموہن سنگھ ہمارے وزیر اعظم ہیں۔ راہل کب وزیر اعظم بنیں گے یہ فیصلہ پارٹی اور خود راہل کو کرنا ہے۔ لیکن سونیا راہل کے وفادار کانگریسی لیڈروں کے درمیان راہل کی تاجپوشی کے وقت کو لیکر منتھن جاری ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اترپردیش کے انتخابات کے نتیجے کے بعد اس پر فیصلہ کردیا جائے جبکہ کچھ کا کہنا ہے اترپردیش کے نتیجے پارٹی کے حق میں نہ آئے تو راہل گاندھی کی تاجپوشی مشکل ہوجائے گی اور پھر 2014ء کا چناؤ بھی منموہن سنگھ کی موجودہ حکومت کی رہنمائی میں ہی لڑنا ہوگا۔ ابھی جس طرح کے حالات ہیں اس سے2014ء کا چناؤ سنگرام جیتنا بہت مشکل ہوگا اور تب راہل کے لئے دلی دور است والا جملہ ہی صحیح ثابت ہوجائے گا۔ اس لئے اگر راہل کو لانا ہے تو جلدی ہی لانا ہوگا۔
دراصل کانگریس اعلی کمان کے ہاتھ پیر 2009-11 کے درمیان تقریباً20 لاکھ کروڑ کے مبینہ مہا گھوٹالوں سے پھول گئے ہیں۔ زیادہ تر جائزوں میں کانگریس، یوپی اے سرکار کو سب سے بدعنوان ترین مانا ہے۔ ٹرانسپیرینسی انٹر نیشنل نے بھی بدعنوان ملکوں کی فہرست میں بھارت کا مقام آگے آنے کا سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔ نتیجتاً کانگریس کی مقبولیت کا گراف دو برسوں میں سانپ سیڑھی کے کھیل کی طرح آسمان سے زمین پر آگیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی اتنا کچھ ہونے کے باوجود ڈاکٹر منموہن سنگھ کی شخصی طور پر ساکھ صاف ہے لیکن ڈاکٹر سنگھ بدعنوانی کے الزامات سے تار تار سرکار کی قیادت کررہے ہیں۔ گذشتہ ایک برس میں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے تین موقعوں پر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ ریٹائرڈ نہیں ہورہے ہیں، وہ استعفیٰ بھی نہیں دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں ابھی ادھورے کام کرنے ہیں۔ سیاسی طور سے ان پیچیدہ حالات میں وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ہٹانے پر پارٹی میں مہابھارت کو ٹالا نہیں جاسکتا۔
راہل کو سرکار کی کمان سونپنے کے پیچھے ایک دلیل یہ بھی دی جارہی ہے کہ اگر راہل وزیر اعظم بنتے ہیں تو ان کی لیڈر شپ میں لوک پال قانون بنا کر اس کی جانچ کے دائرے میں کچھ شرطوں کے ساتھ وزیر اعظم کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے وزیر اعظم رہتے پردھان منتری کو لوک پال بل میں شامل کرنا خطرے بھرا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ کئی گھوٹالوں میں سیدھے سیدھے پی ایم او جانچ کے دائرے میں آرہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی راہل کی لیڈر شپ میں زمین تحویل ترمیم بل پاس کراکر کسانوں کی ہمدردی اسی طرح اور سرکار کے ساتھ کی جاسکتی ہے جیسے کسانوں کے قرضے معاف کرکے یوپی اے سرکار نے حاصل کی تھی۔’ راہل لاؤ‘ مہم کے حمایتیوں کی دوسری مضبوط دلیل یہ ہے کہ راہل گاندھی کے وزیر اعظم بننے کا سب سے بڑا فائدہ اترپردیش میں ہوگا جہاں نہ صرف کانگریس ورکروں میں جان آجائے گی بلکہ اترپردیش میں پارٹی کی جیت کے آثار بھی بڑھ جائیں گے۔ ساتھ ہی اتراکھنڈ اور پنجاب اسمبلی انتخابات میں بھی پارٹی بہتر مظاہرہ کر سکے گی جو راہل کی تاجپوشی کے کھاتے میں چلی جائے گی۔ اس سے نہ صرف کانگریس کے خلاف چلنے والی مہم کی دھار کچھ ہلکی پڑے گی بلکہ اس کے بعد گجرات ہماچل پردیش کے انتخابات اور 2013 میں ہونے والے دہلی،راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات اور 2014 ء کے لوک سبھا انتخابات کے لئے بھی پارٹی کو تقویت ملے گی۔ اس کے علاوہ سونیا راہل کے وفادار کانگریس لیڈر اس لئے بھی راہل کی تاجپوشی جلدی چاہتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ کس طرح پچھلے ایک سال سے یوپی اے سرکار اور کانگریس کے خلاف جو مہم چل رہی ہے اس کے نشانے پر سب سے زیادہ سونیا اور راہل ہی ہیں۔ اس کے خلاف عام جنتا میں راہل کو اس وقت وزیر اعظم بنانے پر غیر رضامندی نظر آتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق71 فیصدی لوگوں نے صاف کہا ہے کہ راہل کو صرف اس لئے وزیر اعظم بنانے کی مہم چل رہی ہے کیونکہ وہ نہرو گاندھی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ان میں وہ قابلیت، تجربہ نہیں ہے جو اس وقت دیش کے وزیر اعظم کو ہونا چاہئے۔ موٹے الفاظ میں ان کی رائے میں راہل گاندھی پرائم منسٹر میٹریل کے نہیں ہیں۔ صرف 27 فیصدی لوگ مانتے ہیں کہ راہل نوجوان طاقت، امید کی علامت ہیں۔ اور دیش کو ایسی لیڈر شپ کی سخت ضرورت ہے۔ فیس بک پر بھی 65 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ راہل وزیر اعظم بننے کے لئے ابھی تیار نہیں ہیں۔ نہ وہ خود بننا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان میں اتنی صلاحیت ہے۔
Tags: Anil Narendra, Corruption, Daily Pratap, Digvijay Singh, Manmohan Singh, Prime Minister, Rahul Gandhi, Transparency International, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟